ایچیسن کالج: غلطی کا مداوا کریں … تحریر : سہیل وڑائچ


بڑے لوگ بڑی غلطیاں تو کر دیتے ہیں مگر جب انہیں اس غلطی کا احساس دلایا جائے تو وہ فورا اس کا مداوا کرتے ہیں اسی لئے وہ بڑے لوگ کہلاتے ہیں، جو لوگ اپنی غلطیوں پر اڑتے ہیں، ضد کرتے ہیں وہ نہ صرف خود ٹوٹتے ہیں بلکہ تاریخ کے کوڑے دان کی بھی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایچی سن کالج کے نیک نام پرنسپل مائیکل تھامسن کوتنگ کرکے استعفے پر مجبور کرنے کا فیصلہ ایک فاش غلطی ہے اس کا فورا مداوا ہی اس کا واحد حل ہے اس غلطی کے حق میں دلیلوں اور تشریحات میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ کوئی اسے مانے گا۔

یادش بخیر ، پنجاب کے سخت گیر حاکم نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے فقیر منش اور سائیکل سوار پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر نذیر کا تبادلہ کردیا۔گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبا اور شہری سڑکوں پر آگئے ، گورنر کالا باغ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اسی طرح کنیئرڈ کالج لاہور کی مقبول پرنسپل میرافیلبوس سے پنجاب کی بیورو کریسی ناراض ہوگئی اور یکا یک ان کے ٹرانسفر کے آرڈر کردیئے گئے۔ کالج کی طالبات نے زبردست احتجاج کیا، حکومت وقت کے پاس فیصلہ واپس لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر میرا فیلبوس نے اپنی ریٹائرمنٹ تک کنیئرڈ کالج کو اعلی تعلیمی اور تربیتی درس گاہ بنائے رکھا۔

آسٹریلوی نژاد مائیکل تھامسن بھی ڈاکٹر نذیر اور میرا فیلبوس کا نعم البدل ہیں وہ سائیکل پر سوار ہو کر کالج میں کھیلوں اور تدریس کی ہر سرگرمی کا خود مشاہدہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایچی سن کالج میں تعلیم کا معیار ہی بدل ڈالا، سکول میں سیاسی اثر و رسوخ ختم کردیا، میرٹ کی بالادستی کو مدنظر رکھا، بڑی سے بڑی سفارش سن کر بھی وہ فیصلہ میرٹ پر ہی کرتے رہے۔ ان سے پہلے کالج میں ہر روز لڑائی جھگڑے ہوتے تھے، منشیات تک کے استعمال کی خبریں تھیں مگر مائیکل تھامسن نے اپنے اقدامات سے ایچی سن کالج کی نشاط ثانیہ کو بحال کردیا۔ سب سے پرانے ایچی سونین سید بابر علی نے اپنے استعفے میں مائیکل تھامسن کی کارکردگی کی جس طرح تعریف کی ہے اس کے بعد ان کیخلاف کسی بھی اشارے تک کی گنجائش نہیں۔سید بابر علی سے زیادہ نہ کوئی ایچی سن کو جانتا ہے اور نہ کوئی ان جیسا وزن رکھتا ہے انکی گواہی سب پر بھاری ہے۔

بظاہر یہ فیصلہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے کیاہے جہاں تک میں نے بلیغ الرحمن کی شخصیت کا مشاہدہ کیا ہے وہ صلح کل اور متوازن شخصیت ہیں ان میں انتقام پسندی کی بو نہیں ہے البتہ ان کی ماتحت بیوروکریسی نے انہیں گمراہ کرکے یہ فیصلہ کروایا ہوگا، فیصلہ جیسے بھی ہوا جس نے بھی کروایا گورنر بلیغ الرحمن کے بے داغ کیریئر پر ایک سیاہ دھبہ ہے جسے فورا دھونے کی ضرورت ہے، گورنر فورا اپنے پروٹوکول اور لاؤلشکر کو چھوڑ کر خود پرنسپل کے گھر جائیں ان سے معذرت کریں اور انہیں اپنا کام جاری رکھنے پر منائیں، اس سے گورنر کا قد بھی بڑا ہوگا اور ہماری اسلامی روایت بھی زندہ ہوگی کہ استاد کا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں سے کہیں بلند ہے۔

اس واقعہ کے اہم کردار احد چیمہ صاحب ہیں وہ وفاقی کابینہ کے غیر منتخب ٹیکنو کریٹ رکن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوانی میں شہباز شریف سے لندن میں ملے انہیں چیمہ صاحب اس قدر پسند آئے کہ جونیئر ہونے کے باوجود انہیں صوبائی سیکرٹری تعلیم کے سینئر عہدے پر فائز کردینے پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ پہلا سکینڈل جو ان دنوں منظر عام پر آیا وہ ان کی ایک ماتحت سے سخت کلامی تھی پھر انہیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ بنا دیا گیا، اربوں روپے کے بجٹ کا حامل یہ ترقیاتی ادارہ انہوں نے چلایا، میٹرو ٹرین جیسے کئی منصوبے مکمل کئے، طویل عرصہ جیل میں رہے، نیب کے مقدمات بھی بھگتے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی بیوروکریٹ بیگم انصاف کیلئے عدالتوں میں دھکے کھاتی رہیں۔ توقع یہ تھی کہ چیمہ صاحب جیل سے نکلیں گے تو احساس تفاخر کے رویے میں تبدیلی لا کر عاجزی اپنائیں گے مگرشہباز شریف کے مشیر کے طور پر ان کا رویہ اور بھی سخت ہوگیا، نگران وزیر بنے تب بھی ان کا رویہ یہی رہا۔ غالب نے شاید ان ہی کے لئے کہا تھا:

گرمی سہی کلام میں لیکن، نہ اس قدر

کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی

غالب ہی کے بقول :بنا ہے شاہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا۔ شہباز شریف کی مہربانی سے وفاقی حکومت میں عہدہ ملا تو پنجاب کی بیورو کریسی کوبھی انہوں نے چلانا شروع کردیا۔ ایل ڈی اے میں آج بھی ان کے پسندیدہ برسراقتدار ہیں اور جو ان کا ناپسندیدہ ہو جائے اس کے لئے ان کے دل میں کوئی رحم نہیں۔ ایک ایماندار صوبائی سیکرٹری نے ان کا ایک ناجائز کام نہ کیا اس کے خلاف مقدمات بنوا کر اسے جیل میں بند کروا دیا۔ وہ شریف آدمی اب تک اپنے ناکردہ گناہ کے بارے میں ہر ایک سے سوال پوچھتا پھرتا ہے ۔ میرا اندازہ ہے ایچی سن کالج کے پرنسپل کیخلاف کارروائی میں بھی اسی نام نامی کا زیادہ کردار ہے۔ اس کالج کی برسوں سے روایت ہے کہ اگر آپ نے کالج میں داخلہ برقرار رکھنا ہے تو چاہے آپ بیرون ملک یا پاکستان کے کسی اور شہر میں پڑھیں آپ کو پوری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ میرے ایک عزیز کا بچہ بورڈر سے ڈے سکالر بنا تو اسے 8 سال تک بورڈنگ ہاؤس کی فیس دینی پڑی۔ یہ ایک قدیمی اصول ہے اور چیمہ کے بچوں نے اگر داخلہ برقرار رکھنا ہے تو پھر فیس بھی ادا کرتے، عام لوگوں پر تو اصول لاگو ہوتے ہیں لیکن مانگے تانگے کے غیر منتخب وزیروں پر کیا کسی اصول کااطلاق نہیں ہوتا؟

میں نے سنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب عملیت پسند ہونے کے باوجود احد چیمہ صاحب کے ناکردہ کارناموں کے اس قدر سحر میں ہیں کہ تمام تر سکینڈلز اور شکایات کے باوجود ان کی آنکھیں بند ہیں لیکن باقی اہل اقتدار تو جاگ رہے ہیں کم از کم وہ مداخلت کرکے مائیکل تھامسن کا استعفی واپس کروائیں، انہیں عزت وتوقیردیں۔سید بابر علی کی منت سماجت کرکے انہیں بھی منائیں۔ اگر مائیکل تھامسن چلا گیا تو آئندہ ہمارے تعلیمی نظام کوبہتر کرنے کوئی نہیں آئے گا، تھامسن چلا گیا تو غیر ملکی سرمایہ کار کیوں پاکستان آئیں گے؟، اگر تھامسن چلا گیا تو جن ہزاروں بچوں کامستقبل اس نے سنوارا ہے وہ کیا ملک سے مایوس نہیں ہو جائینگے؟اگر تھامسن واپس چلا گیا تو کیا کوئی غیر ملکی ہم پر اعتبار کریگا؟ اگر تھامسن واپس چلا گیا تو کیا یہ ثابت نہیں ہو جائیگا کہ تضادستان میں احد چیموں کا دور دورہ ہے یہاں اصول پسندوں کی کوئی گنجائش نہیں، اگر تھامسن واپس چلا گیا توطے ہو جائیگا کہ یہاں اب وزیروں اور طاقتوروں کیلئے اصول اور ہیں اور عامیوں کیلئے اور۔تھامسن کی واپسی انصاف و قانون کا خون ہوگا، میرٹ کا دھڑن تختہ ہوگا، نظام تعلیم کے لئے مایوسی کا دور ہوگا۔ ہے کوئی تو آگے بڑھ کر اس غلطی کا فورا مداوا کرے اور زوال پذیر معاشرے کو ایک گہرے گڑھے میں گرنے سے بچالے۔ ہے کوئی؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ