ماہ رحمت، شفقت، جنت اور الخدمت…تحریر: شعیب احمد ہاشمی 


بنوں کی سائرہ بی بی کے شوہر کوئٹہ میں کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے، گھر کا گزر بسر اچھی طرح سے ہورہا تھا، ایک بیٹا اور بیٹی سکول جارہے تھے۔پھر ایک دن اچانک کوئٹہ میں کوئلے کی کان زمین بھی دھنس گئی، سائرہ بی بی کے شوہر بھی ملبے تلے دب گئے، لیکن اس کان میں صرف خان گل ہی نہیں دفن ہوا تھا بلکہ سائرہ بی بی کے ارمان، بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب بھی تاریکیوں میں کھو گئے تھے۔ سائرہ بی بی کے پاس اب بچوں کو سکول سے ہٹانے اور بیٹے کو مزدوری کیلئے بھیجنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سائرہ بی بی بیوہ ہونے کے بعد  معاشرے اور خاندان کی جانب سے عدم توجہی کیباعث تلخ فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہی تھی، شش وپنج میں مبتلا سائرہ کی بابت الخدمت فاونڈیشن کو اطلاع ملی، الخدمت فاونڈیشن نے سائرہ بی بی کے مسائل سنے اور اس کے بچوں کی کفالت کا فیصلہ کرلیا۔

یہ کہانی اور مسائل صرف سائرہ بی بی کے یا بنوں شہر تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ 6 ارب کے انسانوں پر مشتمل اس کرہ ارض پر15کروڑ 30 لاکھ بچے یتیم ہیں جبکہ صرف پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد46 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن نے کفالت یتیم سے ۔۔ جنت کا حصول بھی۔۔رفاقتِ رسول ۖ بھی کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف سائرہ بی بی کے دو بچوں ہی نہیں بلکہ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 29ہزار 603یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔ اِن میں سے27ہزار 766بچوں کی کفالت ان کے گھروں پر جبکہ ایک 1837یتیم بچوں کی کفالت آغوش ہومز میں کی جارہی ہے۔

تعلیم اور خوراک
آرفن فیملی سپورٹ پروگرام میں یتیم بچوں کی ان کے گھروں پر کفالت کی جارہی ہے۔ بچہ اپنی والدہ کے ہمراہ رہتا ہے اور الخدمت بچے کی ماں یا سربراہ کے نام پر بینک اکاونٹ کھلوانے کا اہتمام کرتی ہے۔ جہاں اس بچے کی تعلیم اور خوراک کی مد میں بچے کی ماں کے اکانٹ میں رقم ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ کسی بھی بیوہ ماں کے سکول جانے والے تمام بچے اِس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اپنے گھروں میں الخدمت کیزیر کفالت 27ہزار 766بچوں کو ملک بھر کے مخلتف حصوں سے چنا گیا ہے اور انہیں 137 کلسٹرز میں آرگنائزکیا گیا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کیلئے الخدمت نے کلسٹر کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہوا ہے، ایک کلسٹر میں 100سے 250 بچوں کو شامل کیا جاتاہے ۔ہر کلسٹر کا ایک انچارج ہوتا ہے، جسے فیملی سپورٹ آرگنائزر(ایف ایس او) کہا جاتا ہے۔ یہ فیملی سپورٹ آرگنائزر بچوں، ان کے خاندان اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ فیملی سپورٹ آرگنائزر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچے اسکول جاتے ہوں۔ بچوں کو گھروں اور اسکولوں میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور الخدمت کی جانب سے جاری کیے گئے وظائف ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی استعمال ہوں۔
ہیلتھ اسکریننگ
الخدمت کے تحت زیرِ کفالت بچوں اور ان کی ماوں کے بنیادی طبی معائنے کے ساتھ ساتھ سال میں ایک مرتبہ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی زیر نگرانی ان کی مکمل ہیلتھ اسکریننگ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ انہیں مفت ادویات مہیا کی جاتی ہیں اور خدانخواستہ کسی بھی مرض کی تشخیص ہونیپرالخدمت کے مقامی ہسپتال میں ان کے ہر ممکن علاج معالجے کابندوبست بھی کیا جاتاہے۔
چائلڈ اینڈ مدر کریکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام
الخدمت فاؤنڈیشن نے اِن یتیم بچوں کا سہارا بننے کے لیے خود کو صرف تعلیم، خوراک، صحت اور دیگر ضروریات تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ ایک مشکل لیکن اہم کام اِن یتیم بچوں کی کردار سازی کا بیڑا بھی اٹھایا ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک بھر میں مثالی مطالعاتی مراکز (ماڈل اسٹڈی سینٹر) قائم کیے گئے۔ اس وقت ملک بھر میں 253ماڈل اسٹڈی سینٹر کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ ان مراکز میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماں کے لیے بھی ماہانہ بنیادوں پر مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، کیونکہ ایک صحت مند اور باشعور ماں ہی ایک مہذب معاشرے کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی کے اِس مربوط نظام کو چار نکات کی مدد سے واضح کیا گیا ہے جس میں تعلیمی سرگرمیاں، جسمانی سرگرمیاں، اخلاقی سرگرمیاں اور معاشرتی سرگرمیاں شامل ہیں۔ چھوٹے بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے تصویری کتب بنائی گئی ہیں، جبکہ بڑے بچوں کے لیے عملی سرگرمیوں پر مشتمل نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اِن یتیم بچوں کے ٹرینرکے لیے بھی نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن، فیملی سپورٹ آرگنائزر کے لیے بھی مختلف ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہے جس میں بچوں سے ہمدردی، دوستانہ ماحول اور ذمہ داری کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ بچوں کی اخلاقی اقدار و عادات جن میں صداقت، ایمانداری، نظم و ضبط، قوانین کی پاسداری، حقوق العباد، بحیثیت ذمہ دار شہری فرائض وغیرہ جیسی صفات سے لے کر بچوں کی کیریئر کونسلنگ کے ذریعے ان کی ذہنی قابلیت، دلچسپی اور مشاغل کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب شعبے کا انتخاب بھی چائلڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کا حصہ ہے، تاکہ وہ اس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر معاشرے کے کارآمد رکن بن سکیں۔ بچوں میں اسکول بیگ اور اسٹیشنری کی تقسیم کے حوالے سے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اور دیگر بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ بچوں کو سیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ لیکچر، دستاویزی فلموں اور کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جس سے بچوں میں احساسِ محرومی کم کرنے میں مدد مل رہی ہے اور ان میں خوداعتمادی پیدا ہورہی ہے۔
باہمت ماں کیلیے معاشی خود مختاری پروگرام
الخدمت فاؤنڈیشن نہ صرف یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کرتی ہے بلکہ بچوں کی ماں کو بھی باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن بچوں کی ماں کے لیے مواخات پروگرام کے تحت ووکیشنل ٹریننگ سمیت چھوٹے کاروبار کے لیے75ہزار روپے تک قرضِ حسنہ بھی فراہم کرتی ہے تاکہ خاندان اپنے پاں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی نہیں بلکہ خواتین کو روزگار شروع کرنے اور ان کی فنی تربیت کیلیے معاونت کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سینکڑوں باہمت مائیں کوکنگ، کڑھائی، سلائی کے کاروبار کے علاوہ بیوٹی پارلر، کریانہ اسٹور اور اسٹیشنری شاپس چلا رہی ہیں۔
یوں تو ملک بھر میں متعدد این جی اوز اور سرکاری ادارے آرفن کئیر کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن ان این جی او اور اداروں سے مختلف کیسے ہے؟ کفالت یتامی پروگرام کے تحت الخدمت کی پہلی ترجیح کسی بھی یتیم بچے کو اس کے خاندان کیساتھ آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے، آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کا جائزہ لینے کیلئے خصوصی نگران اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچہ سکول جارہا ہے یا نہیں؟ بچے کی والدہ یا نگران اس پر توجہ دے رہے ہیں؟ بچے کی تعلیمی اور نفسیاتی صورتحال کیسے ہو رہی ہے؟ الخدمت فاؤنڈیشن کی دوسری ترجیح یتیم بچوں کی والدہ کو بااختیار بنانا ہے، اس کے لئے جہاں یتیم بچے کی فیملی کو سپورٹ کیا جاتا ہے، بچے کی والدہ کو فنی تربیت دی جاتی ہے، بلاسود قرض دیا جاتا ہے تاکہ وہ خود مختار طریقے کیساتھ اپنے بچوں کی پرورش کرسکیں۔

پاکستان میں 46لاکھ سے زائد بچے کسی مسیحا کی تلاش میں ہے، جنہیں زندگی کے اسرار و رموز سے واقفیت دلانے کیلئے ایک مربوط نظام دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا یہ عظیم سرمایہ کسی ورکشاپ یا ہوٹل میں چھوٹے کی روپ میں یا کسی سگنل پر صاحب جی صاحب جی کی صدائیں لگاتے ہوئے ضائع نہ ہوجائے۔ اس خزانے کو انسانی سمگلروں اور جنسی درندوں کے ہاتھوں سے بھی محفوظ بنانا ہے اور یہ سب تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہو۔