چالیس برس پہلے 20 نومبر 1984 کو فیض صاحب کا انتقال ہوا تو مجید امجد کے بعد ہمارے غالبا سب سے بڑے اردو نظم گو اختر حسین جعفری نے ایک نہایت دل گداز نوحہ لکھا تھا۔ جعفری صاحب کی ذہنی افتاد ترقی پسند، انصاف پسنداور آمریت دشمن تھی لیکن ان کا شعری سانچہ جدید عالمی شعریات کے اجزا سے مرتب ہوا تھا۔ اردو کے ایک عام قاری کے لئے ان کی تفہیم قدرے مشکل تھی۔ وہ استعاروں، علائم اور تلمیحات کے ایک بظاہر متفاوت امتزاج سے ایسی شعری اکائی تخلیق کرتے تھے جس میں مقامی ادبی روایت، جدید عالمی فکر، ہم عصر سیاسی تبصرے اور داخلی واردات کا بیان کچھ یوں گھل مل جاتا تھا کہ ان تمام جزیات پر نظر نہ رکھنے والا قاری ایک بڑے تخلیقی معجزے سے دوچار ہونے کے باوجود تفہیم کے مسائل میں الجھ جاتا تھا۔ سترہویں صدی کے جان ڈن اور انیسویں صدی کے میلارمے سے بیسویں صدی کے ایذرا پاونڈ تک اظہار کی یہ پیچیدگی عالمی ادب کے تمام بڑے شاعروں میں موجود رہی ہے۔ خود ہمارے ہاں غالب، اقبال، راشد، میرا جی اور مجید امجد تک ہر بڑے شاعر کو اظہار کے مانوس خطوط سے انحراف کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اختر حسین جعفری کو بھی علی عباس جلالپوری جیسے صاحب علم اور خرد پسند دانشور سے یہ سننا پڑا کہ آپ کی شاعری عام قاری کے لئے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ فن کار سے یہ مطالبہ کیوں کیا جائے کہ وہ اپنے تخلیقی امکانات کو محض اس لئے محدود کر دے کہ اوسط درجے کے دماغوں تک رسائی ہو سکے۔ فیض صاحب کا ارتحال ہوا تو دیس ضیا آمریت کے آسیب میں تھا۔ اس عہد پرآشوب میں فیض صاحب کا زندہ ہونا ہی بذات خود امید کا ایک پہلو تھا۔ اختر حسین جعفری صاحب کے لکھے نوحے میں ایک سطر دیکھیے، یہ عجیب قحطِ صدا پڑا مرے شہر میں سرِ شام سے۔ اب ایک نظر ن م راشد کے تخلیقی کینوس کی طرف کیجئے۔ راشد صاحب کے موضوعات تو نوآبادیاتی استحصال، عالمی استعمار، نسل پرستی، ایشیائی پسماندگی اور اشتراکی استبداد سے لے کر ایران میں ڈاکٹر مصدق کے خلاف امریکی سازش تک پھیلے ہوئے تھے لیکن 1958 میں پاکستان پر ایوب آمریت کا عذاب اترا تو راشد صاحب نے پے در پے متعدد نظمیں اس افتاد کے بیان میں ارزاں کیں۔ “شہر میں صبح” دیکھیے۔ “تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا / یا ہو دور قید غنیم میں میں/ جو نہیں ہیں قید غنیم میں / وہ پکار دیں”۔ پھر “اسرافیل کی موت” دیکھئے۔ نظم ایک ٹھہراو سے اپنا بیان شروع کرتی ہے اور اس نقطے تک پہنچتی ہے، ” مرگ اسرافیل سے / اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق”۔ اور پھر اختتامی سطریں دیکھیے، “مرگ اسرافیل سے / دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی / زبان بندی کے خواب”۔ اب اس پس منظر میں آج کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے۔
14 مارچ کو امریکی ایوان نمائندگان نے سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈاون کا بل منظور کرلیا۔ ٹک ٹاک کے خلاف مسودہ قانون کے حق میں352 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں صرف 65 ووٹ ڈالے گئے۔ یہ مسودہ قانون امریکی سینیٹ اور صدر کی توثیق کے بعد قانون کا درجہ پا جائے گا۔ اگر چینی کمپنی بائٹ ڈانس مقررہ مدت میں ٹک ٹاک ایپ سے علیحدہ نہیں ہوتی تو امریکا میں اس کی ویب ہوسٹنگ سروس روک دی جائے گی۔ دراصل امریکا کو خدشات ہیں کہ چینی ایپ ٹک ٹاک سے حساس معلومات چوری ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف چین بھی اپنی حدود میں سوشل میڈیا پر معلومات کے تبادلے پر کڑی پابندیاں عائد کئے ہوئے ہے۔ یہ معاملہ حساس معلومات اور آزادی اظہار کا نہیں، آج کی دنیا میں دو بڑی طاقتوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا ہے۔ جدید تاریخ میں ایسی ہر کشمکش غریب اور کمزور ممالک میں رہنے والوں پر اس لئے اثر انداز ہوتی ہے کہ وہاں پہلے سے طاقتور ریاست نے بے دست و پا عوام کے پیروں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ طاقتور ممالک انسانی حقوق اور آزادیوں کے خلاف جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، چھوٹے ملکوں میں حکومتوں کو جبر کا ایک نیا جواز مل جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات کے فورا بعد سوشل سروس ایکس کی سروس میں خلل آ گیا۔ ابتدا سوچا گیا کہ غالبا نئی حکومت کی تشکیل کے دوران کسی ممکنہ ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت قائم ہو گئی تو وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صاف کہہ دیا کہ “ایکس کی سروس میں کوئی مداخلت نہیں کی جا رہی۔ اگر ایسا کوئی نوٹیفکیشن ہے تو اسے منظر عام پر لایا جائے۔” 17 مارچ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ویب سائٹ ایکس کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے مختلف سیاسی جماعتوں کی رائے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 19 مارچ کو پی ٹی اے کے سربراہ میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمن نے کہا کہ “وزارت داخلہ نے ایکس کی بندش کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دیں۔” نیز یہ کہ ” ایکس کی بندش کے حوالے سے ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن یہ معاملہ صاف ہونا چاہیے”۔ اور پھر 21 مارچ کو وزارت داخلہ کا پی ٹی اے کے نام وہ نوٹی فی کیشن سامنے آ گیا جو 17 فروری کو جاری کیاگیا تھا جس میں حساس قومی امور کے پیش نظر ایکس کی سروس کو تاحکم ثانی بند کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ عطا اللہ تارڑ کے بارے میں تو گمان ہو سکتا ہے کہ وزارت سنبھالتے ہی انہیں شاید ہر بات معلوم نہ ہو لیکن پی ٹی اے کے چیئرمین کا بے خبر ہونا باور نہیں ہوتا۔ قومی سلامتی کے نام پر طاقت کا کھیل کھیلنے والے نہیں جانتے کہ ایک روز پرویز رشید، عطا الحق قاسمی اور فواد حسن فواد پر لگائے گئے الزام جھوٹ قرار پاتے ہیں۔ چوہدری نثار علی نام کا ایک شخص تاریخ کے غبار میں گم ہو جاتا ہے اور ذاتی توسیع کے لئے ڈان لیکس کی تمثیل گھڑنے والا کسی خلیجی ملک میں بے نشاں ہو جاتا ہے۔ تاہم اس دوران شہر میں آوازوں کے رزق کا قحط بڑھ جاتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ