انتخابات میں دھاندلی کا منظر نامہ : تحریر مزمل سہروردی


آج کل آپ کو ایک بات عام سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان میں کبھی انتخابات شفاف نہیں ہوئے ہیں۔ سب انتخابات میں مینڈیٹ چوری ہوا۔ اس طرح انتخابی عمل سے عام آدمی کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملک کی جمہوریت سے عام آدمی کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رائے بنائی جا رہی ہے کہ ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح پیش کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں انتخابی عمل کا 2002 سے ایک تسلسل جاری ہے۔ 2002کے انتخابات آمریت کے سائے تلے ہوئے تھے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت جلا وطن تھی۔ ایک کنگز پارٹی میدان میں تھی۔ اس لیے آمریت کے سائے تلے ہونے والے انتخابات کو مکمل جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔

انتخابات میں آمریت کی ملاوٹ اس کی افادیت اور ساکھ کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی لیے آمریت کے سائے تلے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں انھیں آمریت کا ہی تسلسل کہا جا سکتا ہے۔ آمر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے یہ انتخابات کروائے اور ان کا مقصد آمریت کا تحفظ کرنا ہی تھا۔ اس لیے ان کو جمہوری انتخابات کہنا درست نہیں ہوگا۔

اس کے بعد 2008 کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات سے قبل ملک کی تمام سیاسی قیادت جلا وطنی ختم کر کے ملک واپس آچکی تھی۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے انتخابات کچھ تاخیر کا شکار ہوئے۔ پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر زور دیا۔ یہ درست ہے کہ آمر ملک میں موجود تھا۔ لیکن سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت واپس آکر انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔

2008 کے انتخابات کے نتائج کوئی حیران کن نہیں تھے۔ ایک آمر کی کنگز پارٹی شکست کھا گئی۔ آمریت ووٹ سے شکست کھا گئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2008 میں پہلی دفعہ ہم نے ووٹ کی طاقت سے آمریت سے چھٹکارا حاصل کیا۔ ہم نے دیکھا کہ انتخابات کے بعد آمر استعفی دیکر گھر جانے پر مجبور ہو گیا۔ آمریت سے جمہوریت کو انتقال اقتدار دیکھنے کو ملا۔صدر مشرف گھر گئے۔ یہ سب انتخابات سے ممکن ہوا۔

2008 کے انتخابی نتائج عمومی طور پر سب سیاسی جماعتوں کو قابل قبول تھے۔ کوئی بڑی دھاندلی کی بات سامنے نہیں آئی تھی۔ جیتنے اور ہارنے والے سب کو انتخابی نتائج قابل قبول تھے۔ کسی نے بھی دھاندلی کی کوئی بات نہیں کی۔ پارلیمان میں بھی دھاندلی کی کوئی بات سننے میں نظر نہیں آئی۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2008 کے انتخابات عمومی طور پر پاکستانی معیار کے مطابق شفاف انتخابات تھے۔ ان کو دھاندلی والے انتخابات نہیں کہا جا سکتا۔

اس کے بعد 2013 کے انتخابات ہوئے۔ان انتخابات میں تحریک انصاف پہلی دفعہ ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ کے پی میں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ یہ ایک مخلوط حکومت تھی۔ کے پی میں کسی بھی جماعت کے پاس مکمل مینڈیٹ نہیں تھا۔ مخلوط حکومت ہی قائم ہونی تھی۔ البتہ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت تھی۔

اس لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انھیں حکومت بنانے کاموقع دیا ورنہ چھوٹی جماعتیں بھی مل کر حکومت بنا سکتی تھیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ 2013کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے ملک میں دھاندلی کا شور مچایا۔ انھوں نے ایک بیانیہ بنایا کہ انتخابات میں 35پنکچر لگ گئے ہیں۔

پھر ہم نے مبینہ دھاندلی کے خلاف ایک آزادی مارچ دیکھا۔ اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے دھرنا دیکھا۔ کنٹینر دیکھا۔ 129دن کے لیے ملک کو سیاسی طور پر جمود کا شکار دیکھا۔ دھاندلی کا شور دیکھا۔ اس سارے سیاسی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے تحریک انصاف کے مطالبہ پر 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا جائزہ لینے کے لیے ایک جیوڈیشل کمیشن کا قیام ہوا۔ اس جیوڈیشل کمیشن کے قیام کے وقت حکومت اوراپوزیشن کے درمیان یہ معاہدہ بھی ہوا کہ اس جیوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سب کو قابل قبول ہوگی۔ یہ بھی طے ہوا کہ اگر جیوڈیشل کمیشن یہ قرار دیتا ہے کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو حکومت مستعفی ہو جائے گی۔ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔

جیوڈیشل کمیشن میں تمام سیاسی جماعتیں پیش ہوئیں۔ تحریک انصاف جو دھاندلی کے الزامات لگا رہی تھی اس سمیت سب کو دھاندلی ثابت کرنے کا بھر پور موقع دیا گیا۔ جب 35پنکچر کے بارے میں ثبوت مانگے گئے تو انھوں نے عدالت میں کہہ دیا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ ہمارے پاس 35پنکچر کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں۔ جن چار حلقوں کو کھولنے کے بارے میں شور مچایا گیا تھا۔ ان چاروں حلقوں میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور تحریک انصاف چاروں حلقوں میں دوبارہ ہار گئی۔ جیوڈیشل کمیشن نے تمام الزامات کی مکمل تحقیقات کیں۔

نواز شریف کی ایک تقریر کے بارے میں بہت شور تھا۔ اس کی بھی بات ہوئی۔ اس کے بعد جیوڈیشل کمیشن نے قرار دے دیا کہ 2013 کے انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے انتخابی بے ضابطگیوں کی بات کی۔ لیکن وہ ہر انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں تاہم دھاندلی نہیں ہوئی۔ اس طرح 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے مکمل تحقیقات ہوئیں اور دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔کیا جیوڈیشل کمیشن کی مکمل تحقیقات کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی۔

اب 2018کے انتخابات میں آر ٹی ایس بیٹھنے کا بہت شور مچا۔ کہا گیا کہ آر ٹی ایس کے بیٹھنے سے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔اب الزام یہ تھا کہ دھاندلی تحریک انصاف اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے کی گئی ہے۔ اس بار عمران خان حکومت میں اور ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تھے۔

آر ٹی ایس بیٹھنے کی تحقیقات کروانے کے لیے شور مچا۔ لیکن 2013کے انتخابات کی دھاندلی کا مطالبہ کرنے والی جماعت نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروانے سے انکار کر دیا۔ خود جیوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرنے والی تحریک انصاف نے اب خود جیوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار کر دیا۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے گا۔ اپوزیشن پارلیمانی کمیشن پر بھی مان گئی۔ لیکن پارلیمانی کمیشن سے بھی تحقیقات نہیں کروائی گئیں۔ اسی لیے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی آج تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ یہ تحقیقات کیوں نہیں ہوئیں۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔

اس کے بعد 2024کے انتخابات کی بات آجاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا ایک بیانیہ بنایا گیا تھا ویسے ہی اب 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہوئیں تو 2024کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیسے ہو سکتی ہیں۔ کیا تحقیقات صرف تحریک انصاف کا حق ہے۔

دوسری جماعتوں کو اس حق سے محروم رکھا جائے گا۔ اس لیے پہلے 2018کی مکمل اور جامع تحقیقات ہونگی تب ہی 2024کے انتخابات کی تحقیقات کی کوئی بات ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو پہلے جواب دینا ہے کہ وہ خود کیوں 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات سے بھاگی۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ 2008اور 2013کے انتخابات شفاف قرار پا چکے ہیں۔ ان میں دھاندلی کی کوئی بات نہیں۔ اس لیے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سب انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس