اسلام آباد(صبا ح نیوز)عالمی بینک نے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے معاشی پالیسی سازوں کو تجویز کیا ہے کہ وہ اجناس اور دیگر اشیا کی منڈیوں میں پائے جا رہے تضادات کاخاتمہ کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں پاکستانی اجناس اور خوراک کی منڈیوں جدید خطوط پر استوار نہیں ہیں جو عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کو فوری طور پر اپنے صارفین پر منتقل کر دیتی ہیں جبکہ جبکہ یہ مارکیٹس عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں ہونے والی کمی کو اپنے صارفین کے فائدے کیلئے انہیں متقل کرنے سے یکسر عاری ہیں اور سرکاری مداخلت بھی انہیں اس امر پر مجبور کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہو پا رہی ہے عالمی بینک نے اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک (ایف اے او) کی جانب سے پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے کئے گئے سروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستانی عوام کو سستی اور وافر مقدار میں اجناس اور کھانے پینے کی اشیا کی دستیابی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کے سبب پاکستان کی68فیصد آباد سستی اور معیاری خوراک کے حصول کے متحمل نہیں ہو پا رہی ہے پاکستان میں پاکستان میں ہر گھرانہ اوسط36فیصد آمدن کو خوراک پر خرچ کرتا ہے جس میں متوسط طبقہ 47فیصد اورکم آمدن گھرانے اپنی خوراک پر28فیصد اخراجات کا متحمل ہو پا رہاہے عالمی بینک نے اپنے زرعی شعبے کیلئے پالیسی نوٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں عوام کو بلند مہنگائی کی شرح اور معیاری اشیا کی عدم دستیابی جیسے عوامل کا سامنا ہے جس کے حل کیلئے پاکستان کو اپنے فوڈ سسٹم کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے پاکستان میں سستی اور معیاری اشیا تک رسائی میں کئی عوامل رکاوٹ ہیں جن میں شہروں میں خریداری کا حجم زیادہ ہونے کے سبب شہروں میں عوام کو مسابقت کی فضا میں دیہات کے مقابلے میں کچھ سستی اشیا دستیاب ہوتی ہیں تاہم دیہات تک ٹرانسپورٹیشن کے سبب ان کی قیمتوں میں مذید اضافہ ہو جاتا ہے جس سے دیہی صارفین کی قوت خرید مذید گر رہی ہے اپنے غذائی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں افراط زر نظام میں مختلف اداکاروں کے زیر اثر طلب اور رسد کے عوامل کے تعامل سے ہوتا ہے۔یہ تعامل اکثر غیر مسابقتی مارکیٹ کے حالات جیسے چیلنجوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ نتائج کا باعث نہیں بنتے ہیں (مثلا خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر تیزی سے مقامی قیمتوں میں گرنے کے مقابلے میں تیزی سے گزرنا) اور مارکیٹ کی ناکامی (مثلا شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں خوراک کی زیادہ افراط زر۔ ، ممکنہ طور پر شہری بازاروں میں زیادہ مارجن کی وجہ سے)۔اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں افراط زر کا بہتر انتظام کرنے کے لیے پالیسی سازوں کو خوراک کے نظام کے مختلف نوڈس کے کردار کو سمجھنا چاہیے اور اسے کم از کم بگاڑ اور غیر ارادی نتائج کے ساتھ مطلوبہ نتائج کی طرف لے جانا چاہیے۔گھر کے کھانے کے اخراجات کا نصف سے زیادہ تین قسموں کے اناج، گوشت اور دودھ پر خرچ ہوتا ہے۔ تاہم، جب غریب ترین کوئنٹائل کا امیر ترین سے موازنہ کیا جائے تو، خوراک کے نمونوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے کیونکہ غریب اناج اور سبزیوں پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور امیر پھلوں اور گوشت پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ کھانے کی اشیا کے متنوع پیکج کے لیے، لیکن ناکارہ مارکیٹیں پیداواری مکس میں تبدیلیوں کو ترغیب دینے کے لیے پروڈیوسر کو ان مطالبات کے اشارے نہیں دیتیں۔ مراعات (نقد کی منتقلی) اور رویے میں تبدیلی کے پیغامات جیسی براہ راست مداخلتوں کا استعمال سستی اور صارفین کی پسند کی مانگ کی قوتوں کو متاثر کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
Load/Hide Comments