اسلام آباد(صباح نیوز)زرعی اعداد و شمار و ڈیجیٹلائزیشن سے علاقائی زرعی تجارت میں کافی وسعت ہے جس سے تحفظِ خوراک کو یقینی بنانا ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار گذشتہ روز ماہرین نے علاقائی زرعی تجارت میں تحفظِ خوراک کی وسعت کے موضوع پر رپورٹ کے اجراکے موقع پر کیا جس کا اہتمام پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور کینیڈا فنڈ پروگرام برائے لوکل انیشیئیٹوز (CFLI) کے اشتراک سے ایس ڈی پی آئی میںکیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے نائب سر براہ ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ موسمیاتی تغیرات کے باعث پاکستان میں وبائی امراض میں اضافہ، سپلائی چین متاثر ہوئی ہیں۔ اشیاخوردو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ اور خطہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوا۔ ان مشکلات کے پیش نظر علاقائی زرعی تجارت کو جدید اسلوب اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس ڈی جی ہدف نمبر 2 پر ہونے والی پیش رفت کافی متاثر ہوئی ہے۔ اس کے منفی اثرات افغانستان پر بھی آئے کہ وہاں کی 95% فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہوئی ہے۔ انہی مشکلات کے پیش نظر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی نے نجی و سرکاری شعبہ کے ذریعے کھلا مباحثہ کا اہتمام بھی کیا جس میں رابطہ کاری کے ذریعے ان معاملات کے پائیدار حل کا مربوط پلیٹ فارم بھی تشکیل پایا جس سے تحفظ خوراک و علاقائی زرعی تجارت کا فروغ ممکن ہو سکے گا۔ اس موقع پر وزارتِ تحفظ ِخوراک حکومت پاکستان کے مشیر برائے اقتصادی امور ڈاکٹر ہارون سرور نے کہا کہ پاکستان سمیت خطے کے چھوٹے کسانوں کو مالی مسائل میں دقت ، زرعی تجارت میں فروغ اور تحفظ خوراک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ علاقائی زرعی تجارت میں فروغ کیلئے چھوٹے کسانوں کی صلاحیت میں اضافہ اور وسائل میں فراوانی کو یقینی بنانا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور وزارت تحفظ خوراک کو مشترکہ تحقیقی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر بحریہ یونیورسٹی کی ڈاکٹر سمرین بابر نے کہا کہ زرعی تجارت کو جدید اسلوب پر لے جانے والے تحقیقی عمل میں طلبہ کو شامل کر کے موبائل اپلیکیشن کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے غذائی تحفظ اور زرعی ترقی کو یقینی بناناممکن ہے۔ اس موقع پر نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والی ریجا طیب نے کہا کہ موسمیاتی آفات سے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کر کے تیار کیا جائے تا کہ وہ تمام تر حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور علاقائی زرعی تجارت میں مقامی کسانوں کی راہنمائی کے لئے اعداد و شمار اور جدید مشاورت فراہم کر سکیں۔