سپریم کورٹ، صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت


اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز سے صحافیوں کے تحفظ سے متعلق تحریری معروضات طلب کرلی ہیں جبکہ آئی جی اسلام آباد سے صحافیوں پرہونے والے حملوں سے متعلق مقدمات کی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے ،

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جنات کے ذریعے کشمیر کے وزیراعظم کے انتخاب کی خبر کا حوالہ  دیتے ہوئے کہاکہ جس خاتون کی پبلک لائف نہیں اسکی تضحیک کی گئی، عوامی عہدہ رکھنے والوں پر تنقید کرنے پر اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل  کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب عدالت گالم گلوچ کے معاملے میں فریق نہیں بنے گی، جنات والی بات گھٹیا اور غیراخلاقی ہے لیکن قابل تعذیر جرم نہیں،بدقسمتی سے ملک میں ہتک عزت کے مناسب قوانین موجود نہیں،

جسٹس قاضی امین  نے کہاکہ انگلینڈ میں میڈیا کی آزادی کی بات کرتے سب وفات پا رہے ہوتے ہیں، انگلینڈ میں کوئی ایسی بات کرے تو گھر بیچ کر بھی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، جھوٹی خبروں کا سب سے زیادہ نقصان خبر دینے والے کو ہوتا ہے، جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ جھوٹی خبروں کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے، جھوٹی خبریں دینے والے جو چاہے کہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا، صحافیوں پر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بھی تشدد کیا جاتا ہے،ہر کوئی چاہتا ہے شام کو اسکی مرضی کا تبصرہ ہو، جسٹس قاضی امین نے کہاکہ پابندیاں اور حدود صرف صحافت پر ہی نہیں ہر ایک پر ہی لاگو ہونی چاہئیں آئین کے ساتھ بہت سے معاملات مارشل لا دور میں بھی ہوئے ہیں جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ مذہبی آزادی اور ضابطہ فوجداری کو ایک ساتھ پڑھیں تو کسی ایک کو پھاڑنا پڑے گا

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ پہلے بھی کہا تھا کہ تمام قانون کو کسی ایک جگہ اکٹھا کریں ،ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس صحافیوں سے متعلق 7 مقدمات ہیں، جن میں سے6 کے چالان جمع ہو چکے،جسٹس قاضی امین نے استفسار کیاکہ کیا صحافی ابصار عالم پر حملہ کے ملزمان گرفتار ہوئے ؟جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ میں ابصار عالم کو نہیں جانتا میرے لئے ہر شہری ابصار عالم ہے ۔

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ملزم کو فنگر پرنٹس اور ویڈیوز سے ٹریس کرنے کے کوشش کر رہے ہیں،جسٹس قاضی امین احمد نے کہاکہ آئی جی صاحب آپ تو بہت قابل افسر ہیںسارے شہر میں کیمرے ہیں لیکن گولی چلانے والا پہچانا نہیں جا رہا۔

آئی جی نے جواب دیا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کی نشاندہی ہوئی تھی لیکن وہ واپڈا ملازم نکلا ، اسلام آباد پولیس تحقیقات کیلئے نادرا اور دیگر اداروں پر انحصار کرتی ہے،نادرا کو د بھیجے گئے فنگر پرنٹس ابھی تک کسی شخص سے میچ نہیں ہوئے ، عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔