ہماری قومی ماہانہ صحافت میں جن جرائد اور شخصیات نے زبردست شہرت اور مقبولیت حاصل کی، ان میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور اس کے مدیر جناب الطاف حسن قریشی سرِ فہرست کہے جا سکتے ہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں جب اردو ڈائجسٹ منصہ شہود پر آیا، اس وقت ہمارے قومی مطلع پر کوئی بھی ایسا جاندار، منصوبہ بند اور نظریاتی جریدہ موجود نہیں تھا۔
جناب الطاف حسن قریشی اور ان کے برادرِ بزرگ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب نے یہ جریدہ مشہور ترین مغربی ماہنامہ انگریزی میگزین ریڈرز ڈائجسٹ کے تتبع میں شائع کرنا شروع کیا تھا۔ اردو ڈائجسٹ کے اولین شمارے دیکھے جائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اردو ڈائجسٹ کی پیشانی بھی ریڈرز ڈائجسٹ کے ٹائٹل کی نقل لگتی ہے ۔
رفتہ رفتہ ارتقا اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اردو ڈائجسٹ کی پیشانی بدلتے بدلتے موجودہ شکل اختیار کر گئی ۔
لاریب جناب الطاف حسن قریشی وطنِ عزیز کے نامور اخبار نویس، مدیر،دانشور، تجزیہ نگار اور مصنف ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قریشی صاحب صحافی سازاور مدیر گر بھی ہیں تو ایسا کہنا اور لکھنا بے جا اور مبالغہ آمیز نہیں ہوگا ۔
دونوں قریشی برادران ( ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی) نے یکمشت اور یکجہت ہو کر اردو ڈائجسٹ کو عروج بخشنے اور مقبول ترین بنانے میں ایسا شاندار اور کمٹڈ کردار ادا کیا ہے کہ ایک زمانے میں انھیں علی برادران ایسی عزت و تکریم بھی حاصل رہی ہے ۔
ان کے مذکورہ ماہنامہ جریدے کو بجا طور پر عملی صحافت کے لیے اکیڈیمی کا درجہ بھی حاصل رہا ہے کہ ہماری قومی ماہنامہ، ہفتہ وار اور روزنامہ صحافت کو اِسی جریدے نے کئی نامور اور معروف صحافی عطا کیے ۔
اردو ڈائجسٹ نے اپنے اداریوں، مضامین، افسانوں، تراجم اور تجزیوں کی شکل میں دو قومی نظریے، اسلام ، نظریہ پاکستان اور اردو زبان کی شاندار خدمت اور تبلیغ کی ہے ۔ یہ خدمات اِس کے حرفِ مطبوعہ اور Contentsمیں واضح طور پر محسوس بھی ہوتی اور نظر آتی ہے ۔ یہ خدمات کوئی معمولی نہیں ہیں بلکہ یہ پانچ عشروں سے زائد عرصے کو محیط ہیں۔
ایک زمانے میں جناب الطاف حسن قریشی کے نامور شخصیات سے کیے گئے انٹرویوز نے پورے ملک میں دھومیں مچا رکھی تھیں ۔ اِن انٹرویوز کی وجہ سے کئی بار حکمران الطاف صاحب سے سخت ناراض بھی ہوئے اور نوبت ایں جا رسید کہ اردو ڈائجسٹ پر پا بندیاں عائد کر دی گئیں۔ قید و بند کی سزائیں بھی ہوئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق نے بھی قریشی صاحب پر خوب غصہ اتارا۔ بھٹو صاحب سے تو خیر پھانسی لگنے تک قریشی صاحب کی صلح نہ ہو سکی، لیکن جنرل ضیا الحق سے ناراضی اور کشیدگی کے بعد ضیا اور ان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ان کی ایسی صلح اور دوستی ہوئی کہ بس : من تو شدم، تو من شدی ! قریشی صاحب کے ماہنامہ جریدے کے بعد ہمارے قومی مطلع پر کئی ماہنامہ جرائد اور ڈائجسٹ معرضِ عمل میں آئے اور بعض نے بڑی شہرت بھی حاصل کی( مثال کے طور پر سیارہ ڈائجسٹ، سب رنگ ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ) ، لیکن یہ سچ ہے کہ جو منفرد شہرت اور عروج اردو ڈائجسٹ کو حاصل ہوا ، وہ کسی کا نصیب نہ بن سکا۔ مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) تک اسے مقبولیت حاصل رہی ہے ۔
یہ معمولی اعزاز نہیں ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ایام میں جناب الطاف حسن قریشی نے مشرقی بازو کے کئی دورے کیے اور پھر (قسط وار محبت کا زمزم بہہ رہا ہے کے زیر عنوان) اپنا آنکھوں دیکھا احوال قارئین کے سامنے جراحتِ دل کے ساتھ پیش کر دیا۔
اگرچہ لاتعداد لوگوں نے قریشی صاحب کے مذکورہ مشاہدات و تاثرات سے عدم اتفاق بھی کیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تحریریں مشرقی پاکستانیوں کے دل کی آواز نہیں ہیں۔ اب سابقہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے قریشی صاحب کی لکھی گئی کئی تحریروں کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع بھی کر دیا گیا ہے۔ یہ تحریریں زندہ تاریخ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ہم ان کے آئینے میں اپنا ماضی دیکھ سکتے ہیں ۔
اچھی اور مستحسن بات یہ ہے کہ پچھلی نصف صدی کے دوران وقفے وقفے سے اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی جناب الطاف حسن قریشی کی اہم تحریں کتابی شکل میں مرتب کی جارہی ہیں۔ یہ ہمارا تاریخی، ادبی،صحافتی اور سیاسی اثاثہ ہے۔تقریبا ڈھائی سو صفحات پر مشتمل نئی کتاب قافلے دل کے چلے بھی ایسی ہی ایک تصنیف ہے ۔ اِسے ایقان حسن قریشی نے مرتب کیا ہے۔
یہ خوبصورت ، دلکشا اور روح افزا رپورتاژ دراصل جناب الطاف حسن قریشی کا سفرنامہ حج ہے۔ تقریبا56برس قبل سعودی بادشاہ ( شاہ فیصل شہید) کی جانب سے قریشی صاحب کو، دنیا کے دیگر کئی مسلم صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ، حج کی عظیم سعادت حاصل کرنے کی دعوت دی۔ یہ1967 کی بات ہے ۔ اور اِس کے بعد تو یہ حالت ہوئی کہ، بقول جناب مجیب الرحمن شامی، پھر دل کا قافلہ چلتا گیا۔
اپنے اولین سفر نامہ حج کا احوال الطاف حسن قریشی صاحب نے کچھ ایسے اسلوب میں ان ایام میں اردو ڈائجسٹ میں لکھا اور سعودی فرمانروا اور ان کی شاہی حکومت کی ایسے انداز میں تعریف و تحسین کی کہ پھر سعودی شاہی خاندان اور سعودی عرب کی سر زمین کے دروازے قریشی صاحب پر کھلتے چلے گئے۔ ایسے دلنواز ایام میں الطاف صاحب نے شاہ فیصل شہید کا مفصل انٹرویو بھی کیا تھا ۔ یہ ان دنوں کسی صحافی کے لیے زبردست صحافتی اسکوپ کہا جا سکتا تھا ۔
رومانویت، منظر نگاری، خود کلامی، تاریخ کی جانب ہلکے ہلکے اشارے اور احساسِ دروں جناب الطاف حسن قریشی کی جملہ تحریروں کے مرکزی نکات ہیں ۔ یہ نکات اور خوبیاں بدرجہ اتم ہمیں قافلے دل کے چلے میں بھی ملتی ہیں ۔
قافلے دل کے چلے نسبتا پرانا اور محض سادہ سفر نامہ حج ہی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب کی بتدریج ترقیاتی تاریخ بھی ہے ۔سعودی شاہی خاندان کی حجاج کرام کے لیے ہمہ دم ، نت نئی خدمات کی ایک تاریخ بھی۔ شاہ فیصل شہید سے براہ راست ملاقات اور ان کے انٹرویو کے بعد چونکہ الطاف صاحب کو ، شاہی سہولتوں اور گائیڈنس کے ساتھ، سعودی عرب کے طول و عرض کا مشاہدہ کرنے کے مواقع بھی ملے، اس لیے زیر تبصرہ کتاب کے تقابلی مطالعہ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پچھلی نصف صدی کے دوران سعودی عرب نے ڈویلپمنٹ کی کیسی کیسی شاندار منازل طے کی ہیں ۔
مصنف کو نصف صدی قبل دورانِ حج سعودیوں اور فلسطینیوں کی جانب سے جو محبت و اکرام ملا، اِس کا احوالقافلے دل کے چلے میں پڑھ کر اب حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانیوں اور سعودیوں کے درمیان کیسے فاصلے پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ فاصلے اور بعد کیوں پیدا ہوئے ، اِس کا احساس مصنف کو بھی ہے کہ انہوں نے بھی زیر نظر کتاب میں بارِ مژگاں کے زیر عنوان اشارتا اِس کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔
الطاف صاحب اور اردو ڈائجسٹ کی اکثر تحریروں میں بھارت سے نفرت اور ناپسندیدگی کا عنصر ملتا ہے۔ یہ عنصر ہمیں قافلے دل کے چلے میں بھی ملتا ہے کہ مصنف بہرحال ایک سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس