ہائبرڈ نظام پی ٹی آئی کے دور حکومت سے بہت پہلے ہی اس وقت آ گیا تھا جب دسمبر 2014 کو سانحہ اے پی ایس پشاور کے فوری بعد اپیکس کمیٹیاں اور پتہ نہیں کیا کیا بنا کر سول حکومت کے بہت سارے اختیارات مزید نچوڑ لیے گئے۔ جنرل راحیل شریف نے اقتدار کو فل انجوائے کرنے کے لیے توسیع لینے کا پلان پہلے ہی سے بنا رکھا تھا مگر وزیر اعظم نواز شریف نے ہمت دکھاتے ہوئے کورا جواب دے دیا۔ ان کی جگہ جنرل قمر جاوید باجوہ آ گئے لیکن اصل منصوبے پر کام جاری رہا۔ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے بعد یہی تصور کیا جا رہا تھا کہ آئینی نظام کی جگہ طویل المدت ہائبرڈ سسٹم قائم کرنے کا پلان مکمل ہوگیا۔ اس وقت سے اب تک سیاسی پارٹیاں مختلف انداز میں جد و جہد کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ سودے بازیاں بھی۔ آج 2024 میں عالم یہ ہے کہ کسی شک و شبے کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مکمل ہائبرڈ نظام نافد کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں 1973 کا آئین عملاً بے معنی ہوتا جارہا ہے۔ حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی باتیں محض خواب بن کر رہ جائیں گی۔یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ پراجیکٹ عمران جنہوں نے مسلط کیا اس کی تباہ کاریوں پر قابو پانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا کام بند کرکے انتظار میں بیٹھ جائیں کہ کب طاقتور حلقوں کی جانب سے کوئی اشارہ ہو اور پھر حاضر جناب کہہ کر اپنی خدمات پیش کی جائیں۔ پراجیکٹ عمران کے حوالے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں ٹکرائو کا تاثر پوری طرح سے مصنوعی نہیں لیکن اصلیت یہ ہے کہ ہر جج جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس وقار سیٹھ مرحوم اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح نہیں ہوتا۔ مرحوم چیف جسٹس نسیم حسن شاہ اعتراف کرچکے ہیں کہ جج اپنی نوکری بچانے کے لیے وزیر اعظم کو پھانسی کی غلط سزا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بظاہر محاذ آرائی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا تو یہ درست نہ ہو گا۔ بہر حال مقتدر حلقوں کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے جیسے جان بھی لیا جائے تو رائے دینے میں احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ ہم عوام کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے مسائل کون حل کرے گا؟ ووٹ سیاسی جماعتیں لیتی ہیں تو ان سے سوال کرنا بنتا ہے کہ ملکی سیاست کو جمہوری رنگ دینے کے لیے جو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیا ان کا دس یا بیس فیصد بھی کیا گیا ہے؟ 2018 سے اب تک سٹریٹ پاور اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے متاثر کن جد وجہد کرنے والی جے یو آئی اب کہہ رہی ہے کہ آٹھ فروری کو عام انتخابات کرانا مناسب نہیں، تاریخ آگے کی جائے۔ مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں ملک ایک بار پھر دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے، اگلی منتخب حکومت جون میں بجٹ پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ دو صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔یہ کہا جارہا ہے کہ ان حالات میں ٹرن آوٹ کم رہا تو انتخابی نتائج متنازع ہو جائیں گے۔ مولانا کے موقف کو درست مان بھی لیا جائے تو یہ سوال کھڑا ہو جائے گا کہ الیکشن کب تک ملتوی کیے جاسکتے ہیں ؟ جو مسائل بیان کیے یہ تو پاکستان کو مستقل درپیش ہیں تو کیا الیکشن کا عمل ختم ہی کر دیا جائے، جمہوریت اور آئین پسند حلقوں کا اس موقف پر جے یو آئی سے گلہ کرنا بے جا نہیں لیکن سب سی بڑی سٹیک ہولڈر مسلم لیگ ن کا کیا حال ہے۔ تجزیہ کاروں اور مبصرین کی رائے یہی تھی کہ نواز شریف کی لندن سے لاہور واپسی کے بعد انتخابی ماحول بن جائے گا۔مینار پاکستان پر بڑے جلسے کے بعد یہی اندازہ تھا کہ اب ملک کے مختلف شہروں میں جلسے اور ریلیاں ہوں گی، دوسر ی تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بھی متحرک ہو کر سیاسی میلہ لگا دیں گے لیکن حیرت انگیز طور پر شریف خاندان نے اپنی تمام سرگرمیاں ماڈل ٹائون میں اپنے دفتر تک محدود کرلیں۔ اگرچہ ٹکٹیں بانٹنا بہت احتیاط اور غور فکر کا تقاضا کرتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ میدان خالی چھوڑ کر ہیٹر والے آرام دہ دفاتر میں منتقل ہو جائیں۔ یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہیے کہ مسلم لیگ ن نے آٹھ فروری کو انتخابات کی حتمی تاریخ قرار دینے کے حوالے سے کوئی بیانیہ نہیں بنایا، نواز شریف نے وطن واپسی پر صرف اتنا ہی کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ پیپلز پارٹی کی تو سیاست ہی الگ ہے اس لیے تبصرے کی ضرورت نہیں۔ بچی کھچی پی ٹی آئی اگر الیکشن سے راہ فرار تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کی وجہ سمجھ آتی ہے لیکن اگر انتخابی ماحول نہیں بن رہا تو اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس وقت بھی ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سب اچھا نہ ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کے تحت رضا مندی سے کیا جا رہا ہو۔ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کا اسٹیبلشمنٹ پر اور اسٹیبلشمنٹ کا ان دونوں پر مکمل اعتماد ہوتا تو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاستدانوں کی کردار کشی کا سلسلہ نمایاں حد تک رک جاتا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام اینکر پرسن اور رٹے رٹائے فقرے بولنے والے تجزیہ کار عام انتخابات کو ملتوی کرانے کے لیے باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔ یہ شرلیاں بھی چھوڑی جارہی ہیں کہ پی ٹی آئی بہت مقبول ہے، پتہ نہیں آٹھ فروری کو کیا ہوجائے گا۔ یہ سب کچھ زمینی حقائق کے منافی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا میں موجود اپنے کارندوں کو کہہ رکھا ہے کہ بس ہمارے خلاف نہیں جانا، باقی کھلی چھٹی ہے، بے شک پی ٹی آئی کی حمایت کرو اور جتنا چاہو سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالو۔ عین ممکن ہے اسی طرح کی ہدایات عدلیہ میں موجود ثاقب نثار باقیات کو بھی دی گئی ہوں ورنہ نو مئی کے بعد اس بات کا پورا موقع پیدا ہوگیا تھا کہ فوج میں بغاوت کرانے کی سازش میں ملوث عدلیہ کے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کر لی جاتی تو بالکل شور نہیں مچنا تھا بلکہ اس ایکشن کو عوامی تائید حاصل ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں ایسے ججوں کی سمت بھی درست ہو جاتی جو آئین و قانون سے ہٹ کر عجیب و غریب جانبدارانہ فیصلوں کے ذریعے ریاست کے لیے مشکلات پیدا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب تک جو کچھ چل رہا اس کو دیکھ کریہ کہنا مشکل نہیں کہ جو عناصر عام انتخابات کو متنازع بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ابھی سے یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ اگلی منتخب حکومت زیادہ دیر چل نہیں پائے گی۔ یہ بات اسی صورت میں درست ثابت ہوگی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے کی اپنی آئینی ڈیوٹی پوری کرنے کے بجائے ”لاتعلقی“ کا رویہ اختیار کیا۔ ایسا ہوا تو سیاسی استحکام آئے گا نہ ہی ملک چل پائے گا۔ لگتا ہے سیاسی جماعتوں کو بھی مقتدر حلقوں کے حوالے سے زیادہ خوش فہمیاں نہیں۔ اسی لیے انہیں بھی کوئی جلدی نہیں۔ شاید یہ سوچا جا رہا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ہائبرڈ نظام میں ہی جانا ہے تو اپنا وقت ، وسائل اور توانائیاں کیوں ضائع کی جائیں۔
Load/Hide Comments