بار‘ بینچ اور سائلین : تحریر مزمل سہروردی


پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رات کو عدالت کھول کر تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر زرتاج گل کی حفاظتی ضمانت لے لی۔

ان کے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے ہیں کہ رات کو عدالت پختون روایات کے تحت ایک خاتون کو ضمانت دینے کے لیے کھولی گئی ہے، پختون روایات میں کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ میں سمجھتا ہوں حفاظتی یا راہداری ضمانت ہر پاکستانی شہری کا قانونی حق ہے، جیسے ضمانت قبل از گرفتاری ہر پاکستانی کا قانونی حق ہے۔

اس حق سے کسی بھی پاکستانی کو محروم نہیں کیا جا سکتا، اس کے قانونی حق کا پختون یا کسی اور علاقے کی روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ قانون اور آئین کی بات ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ آئین اور قانون کے مطابق حفاظتی ضمانت ہر شہری کا حق ہے اور معزز عدالت نے ایک پاکستانی شہری کو یہ حق دینے کے لیے رات کے وقت عدالت کھولی ہے تو زیادہ بہتر اور پرمعنی ہوتا۔

اب تو کوئی یہ تاثر بھی لے سکتا ہے کہ جیسے پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پختون روایات میں خاتون کو زیادہ عزت و مرتبہ حاصل ہے ، حالانکہ یہ سراسر قانون اور آئین کا تقاضا ہے اور یہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون دانوں کو تو یقینا علم ہوگا کہ پاکستان کا نظام انصاف یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے یہ علاقائی روایات پر قائم نہیں ہے۔

ججز سمیت تمام ریاستی اعلی عہدیداروں نے آئین اور قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے منتخب نمائندے بھی یہی حلف اٹھاتے ہیں، ان سب نے علاقائی روایات کی پاسداری کا حلف نہیں اٹھایا ہوا۔ نظام انصاف نے ہر شہری کو برابری کے اصول پر یکساں انصاف دینا ہے، نظام انصاف کے لیے قانون ہی اہم ہے۔

وہ کسی کو اس کے اسٹیٹس دیکھ کر دوسرے سائل کو برتری نہیں دے سکتا ہے۔ نظام انصاف اگر رات کو عدالت لگانا چاہتے ہیں تو یہ اصول پاکستان کے تمام شہریوں پر لاگو ہونا چاہیے ، ہرفریادی اور سائل قانون کی نظر میں برابر ہے۔

نظام انصاف قائم ہی شہریوں کی داد رسی کے لیے اور اسی کام کے لیے نظام انصاف کی ضروریات پور کرنے اور دیکھ بھال کے لیے قومی خزانے سے رقم خرچ کی جاتی ہے، اگر چند مخصوص لوگوں کی داد رسی کے لیے رات کو عدالت لگائی جائے گی تو عام شہری ہی نہیں بلکہ ہر باشعور یہی مطالبہ کرے گا کہ یہ اچھا بات ہے لیکن تمام پاکستانی شہریوں کے ہونا چاہیے کیونکہ داد رسی کا فیصلہ یا ریلیف چاہے کتنا بھی جائز ہو اگر ٹارگٹڈ ہو گا تو باتیں ہوگی۔

مجھے زرتاج گل کی ضمانت منظور ہونے یا انھیں ریلیف ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے ان کے مفرور اور اشتہاری ہونے پر تحفظات ضرور ہیں، انھیں بروقت قانون کے سامنے سرنڈر کرنا چاہیے تھا۔ میں زرتاج گل کو ضمانت دینے کے لیے رات کو عدالت کھلنے کے نکتے پر اپنی رائے دینے کی کوشش کر رہا ہوں وہ اس لیے کہ میرے اور آپ جیسے لاکھوں سائلین کے لیے رات کے وقت عدالت نہیں کھلتی ہے۔

میں کسی چھوٹے سے جرم میں بھی پکڑا جاں تو مجھے رات حوالات میں گزارنے پڑے گی کیونکہ رات کو عدالت بند ہوتی ہے۔

میں اتنا بااثر یا سیلبریٹی نہیں ہوں کہ میرے واویلے پر رات کو عدالت کھل جائے،یوں زرتاج گل کے لیے رات کو عدالت کھلنا اور انھیں ضمانت مل جانا ایک غیر معمولی ریلیف ہی سمجھا جائے گا۔ کیا اس طرح کا ریلیف یکساں نظام انصاف کے اصول اور تھیوری پر پورا اترتا ہے؟ میں اس پر کوئی بات نہیں کروں گا۔

جب تحریک انصاف کے چیئرمین دوسری دفعہ آئین سے کھلواڑ کرنے بلکہ اسے توڑنے کی تیاری کر رہے تھے، تب رات کو عدالت کھولی گئی تھی، آئین قانون کو بچانے کے لیے رات کو عدالت کھولی گئی تھی لیکن اس ایک دفعہ کا قرض اتارنے کے لیے ہم نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے کتنی دفعہ رات کو عدالتیں کھولی ہیں۔ حالانکہ کوئی موازنہ نہیں ہے۔

میری نظر میں جب بھی تحریک انصاف کے لوگ قانون کی گرفت میں آنے لگتے ہیں، یہ لوگ اور ان کا سوشل میڈیا رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں، ظلم ظلم کی دہائی دیتے ہیں، عدلیہ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں ،نفسیاتی دباؤ کا ماحول بناتے ہیں۔

اسی ماحول کے زیر اثر وہ غیرمعمولی ریلیف لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پوچھاجانا چاہیے کہ جناب! آپ نے کچھ تو ایسا کارنامہ کیا ہوگا، جس کی وجہ سے ایف آئی آر درج ہوئی ، مفرور ہونے کی بھی کوئی تو وجہ ہوگی ، کسی کو بلاوجہ یا بغیر کسی قانونی جواز کے اشتہاری تو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

مجھے یقین ہے کہ پختون روایات میں بھی خاص انصاف کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ان کی گرفتاری کے لیے پولیس ہائیکورٹ کے باہر کیوں کھڑی ہے؟

سیدھی سی بات ہے کہ قانون کی نظر میں وہ مفرور ہیں اور قانون کو مطلوب ہیں۔ اس لیے پولیس ان کو گرفتار کرنے کے لیے کھڑی ہے، ان پر الزام ہے کہ وہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ہیں، ان پر ایف آئی آر درج ہے۔

پولیس عدالت کے احاطہ میں کسی کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ یہ ممانعت چیئرمین تحریک انصاف کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کے بعد ہوئی تھی، پہلے ایسی کوئی ممانعت نہیں تھی۔

زرتاج گل نے عدالت کے احاطہ سے اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی دھائی دے رہی تھیں۔ کیا کوئی بھی شخص عدالت کے بار روم اور عدالت کے احاطہ سے اپنی مظلومیت کی ویڈیو اپ لوڈ کر سکتا ہے؟ خواہ وہ مفرور اور اشتہاری کیوں نہ ہو۔ میرا بار کے عہدیداروں سے بھی سوال ہے کہ بار روم صرف ایک مخصوص شہری کے لیے کھولا گیا ہے ، صرف انھیں وہاں رات گزارنے کی سہولت دی گئی تھی۔

کیونکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے وکلا نے بار رومز میں سائلین اور عام شہریوں کے داخلہ پر پابندی لگائی ہوتی ہے۔ بار روم کے اندر صرف وکیل ہی جا سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ اب جو بھی سائل حفاظتی ضمانت کے لیے رات کو عدالت پہنچے گا، اسے بار روم وہی سہولیات دی جائیں گی جو زرتاج گل کو دی گئی ہیں، ایسے ہی ویڈیو بنانے کی سہولت بھی دی جائے گی، کیمرے لیجانے کی اجازت ہو گی، ویڈیو اپ لوڈ کرنے کی اجازت ہو گی۔مجھے امید ہے کہ جیسے ایمان طاہر اور زرتاج گل کے لیے پشاور کی وکلا برادری پولیس سے لڑ ی ہے، ویسے ہی میرے اور آپ کے لیے بھی لڑے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس