منگل کی رات سونے سے قبل موبائل پر تازہ ترین جاننے کے لئے نگاہ ڈالی تو سرتاج عزیز صا حب کے انتقال کی خبر ملی۔ اسے دیکھتے ہی خیال آیا کہ بدھ کی صبح اٹھ کر ان کے بارے میں لکھنا ہوگا۔ یہ سوچتے ہی مگر گھبرا بھی گیا۔چند روز قبل ہمارے انتہا پسند مشہور ہوئے سفارت کار جناب ریاض کھوکھر صاحب کے لئے تعزیتی کالم لکھا تھا۔اسے پڑھ کر وجاہت مسعود خفا ہوگئے۔مجھے تنقید کا نشانہ بنانے سے قبل تاہم انہوں نے نہایت خلوص سے میری تعریف میں چند ایسے کلمات بھی لکھے جن کا میں دیانتداری سے خود کو حقدار نہیں سمجھتا۔ وجاہت مسعود کی زبان وبیان پر گرفت مجھے حیران اور اکثر رشک میں مبتلا کردیتی ہے۔بہرحال میری بے حد ستائش کے بعد انہوں نے فیصلہ سنایا کہ ریاض کھوکھر مرحوم کے لئے لکھا تعزیتی کالم میری دوست نوازی کی وجہ سے توصیفی بن گیا۔ ان کی ستائش میں بہک کر میں پاکستان کے عقابی سفارت کاروں کی اس اجتماعی سوچ کو بھلا بیٹھا جو پاکستان کو دنیا کے روبرو ایک انتہا پسند ملک کے طورپر ا جاگر کرنے کا باعث ہوئی۔
وجاہت صاحب کا لکھا کالم پڑھ کر میں شرمسار ہوا۔ خود کو عقل کل کبھی تصور نہیں کیا اور اگر آپ کا لکھاکوئی کالم پرخلوص دوستوں کو بھی اعتراض اٹھانے کو اکسائے تو اپنے رویے سے رجوع کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔اپنے دفاع میں فقط یہ کہتے ہوئے سرتاج عزیز صاحب کی جانب لوٹ آؤں گا کہ مجھ جیسے بے ہنر تعزیتی کالم لکھتے ہوئے ورثے میں ملی چند تہذیبی محدودات کے لاشعوری احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔فطرتا جرات وبے باکی سے محروم ہوں۔ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ سرکار کے لائسنس کے تحت شائع ہوئے اخبار کے لئے لکھ رہا ہوں جو بے تحاشہ قواعد وضوابط کا پابند ہونے کے علاوہ ایسے معاشرے میں قارئین تک پہنچتا ہے جہاں خدائی فوجداروں کے بے شمار گروہ آپ کو قابل گردن زدنی ٹھہرانے کو بے تاب رہتے ہیں۔بھائی وجاہت مسعود کی طرح مجھے تاریخ کے علاوہ ہنر بیان پر ایسی گرفت بھی میسر نہیں کہ اپنی بات کہہ دینے کے بعد پنجابی محاورے کے مطابق پکڑائی بھی نہ دوں۔
سرتاج صاحب کی طرف لوٹتے ہی پہلا خیال یہ آیا کہ انہیں ملنے سے کئی برس قبل میں ان کی دختر پونم عزیز سے ملا تھا۔ وہ 1976 میں قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبہ علم تھیں۔ اس برس پاکستان ٹیلی وژن نے ایک ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد کیا۔مجھے اس میں حصہ لینے کو پاکستان ٹیلی وژن کے بانیوں میں نمایاں ترین آغا ناصر مرحوم نے اکسایا۔ بالآخر ڈرامہ لکھ دیا تو راولپنڈی اسلام آباد ٹی وی میںاس کی پروڈکشن شروع ہوئی۔پونم عزیز کو اس میں ہیروئین کا کردار نبھانے کو جانے کس نے قائل کیا۔ ہیرو کا کردار منظر صہبائی نے ادا کیا۔وہ گورنمٹ کالج لاہور میں مجھ سے دو سال سینئر ہونے کے باوجود پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں ملازمت کے لئے اسلام آباد منتقل ہوئے تو نہایت قریبی اور بے تکلف دوست بھی ہوگئے۔احتیاطا یہ بھی یاد دلانا ہوگا کہ وہ ہمارے مایہ ناز شاعر وڈرامہ نگار سرمدصہبائی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
بہرحال اس ڈرامے کی ریہرسل کے دوران میں پونم عزیز کی سادگی اور انکساری سے بہت متاثر ہوا۔ اس کا ذکر چند دوستوں سے کیا تو انہوں نے اطلاع دی کہ پونم کے والد پلاننگ ڈویژن کے بہت بڑے افسر ہیں۔اسلام آباد میں افسروں کی اولاد پونم کے مقابلے میں قطعا مختلف رویہ اپنائے رکھتی تھیں۔ بہرحال کئی برس گزرگئے تو 1985 آگیا۔اس برس جنرل ضیا نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخاب کروائے۔اس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم ہوئے تو سرتاج عزیز صاحب وزیر خوراک وزراعت تعینات ہوگئے۔ بطور رپورٹر ان سے سلام دعا کی کوشش کی۔ وہ ہمیشہ چمکتی آنکھوں اور چہرے پر مستقل مسکراہٹ سے ہیلو ہائے کرتے مگر اس سے آگے بڑھنے کو ہرگز آمادہ نہ ہوتے۔ مجھے احساس ہوا کہ ان سے اندر کی بات کبھی نہیں جان پاؤں گا۔ معیشت وزراعت ویسے بھی میرا شعبہ نہیں تھے۔ ان سے فاصلہ برقرار رکھنے کو مجبور ہوگیا۔
1986 میں دی نیشن کے اسلام آباد بیورو کا نگران مقرر ہوا تو خبر ملی کہ سرتاج صاحب اور مجید نظامی صاحب میں بہت قربت ہے۔سرتاج صاحب اسلامیہ کالج کے طالب علم ہوتے ہوئے تحریک پاکستان میں متحرک مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں حمید نظامی کے ساتھی بھی رہے تھے۔ میں نے سوچا ان تعلقات کا واسطہ دیتے ہوئے سرتاج صاحب سے بطور رپورٹر روابط بڑھاؤں۔ وہ مگر نہایت شفقت سے پیش آنے کے باوجود اندر کی بات بتانے کو آمادہ نہ ہوئے۔ 1988 کے برس میری شادی ہوئی تو دریافت یہ بھی ہوا کہ سرتاج صاحب میرے سسر -ڈاکٹرمحمود سلیم جیلانی- کے ساتھ کئی دہائیوں تک پلاننگ کمیشن میں شریک کار رہے ہیں۔بیرون ملک دورے کی وجہ سے میری شادی کی تقریب میں شریک نہیں ہوپائے تھے۔ وہاں سے لوٹتے ہی لیکن ہمارے ہاں آکر میری بیوی کو شفقت بھری مبارک سے نوازا۔ یہ تعلق بھی لیکن انہیں مجھ رپورٹر کے لئے کھولنے کے کام نہیں آیا۔
بتدریج وہ نواز شریف کی پہلی حکومت میں وزیر خزانہ تعینات ہوگئے تو اس حکومت کی متعارف کردہ پالیسیوں کے خلاف قومی اسمبلی یا سینٹ میں تندوتیز تقاریر ہوتیں۔ میں اپنے گیلری والے کالم میں انہیں جان بوجھ کربڑھا چڑھا کر پیش کرتا۔ پارلیمان کی راہداری میں سرتاج صاحب سے اچانک ٹاکرا ہوجاتا تو شفقت بھری مسکراہٹ سے میری بیوی اور سسرال والوں کے نام لے کر حال احوال پوچھ کر آگے بڑھ جاتے۔ ایک بار بھی میرے لکھے کسی سخت فقرے کا گلہ نہیں کیا۔
بعدازاں مجھے باوثوق ذرائع سے خبر ملنا شروع ہوئی کہ ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان لاہور سے آئے صنعت کار نوازشریف کی متعارف کردہ پالیسیوں سے ناراض ہورہے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب کوشکوہ کنائی کیلئے اکثر ایوان صدر طلب کرتے ہیں۔اس خدشے کا ظہار بھی کیا کہ غلام اسحاق خان پشتون بنیادوں پر سرتاج صاحب کو مستعفی ہونے کو مجبور کرسکتے ہیں۔یہ کالم چھپنے کے بعد مجھے پہلی بار سرتاج صاحب نے ٹیلی فون پرازخود رابطہ کیا اور ملائمت سے حکم صادر کیا کہ اسمبلی کے اجلاس کے لئے آؤں تو ان کے چیمبر میں آکر ان سے ملوں۔ رپورٹر کی کمینی خواہش بالآخر پوری ہوتی نظر آئی۔میں ان سے ملا تو انہوں نے ہنستے مسکراتے میری خبر کی تصدیق کردی کہ صدر غلام اسحاق خان نواز شریف کی پالیسیوں سے نالاں ہونا شروع ہوگئے۔انہوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ صدر صاحب ان کے پلاننگ کمیشن میں باس رہے ہیں۔ ساتھ ہی مگر خبردار بھی کردیا کہ غلام اسحاق خان کی طرح وہ یقینا پشتون ہیں۔ ذات کے مگر کا کا خیل ہیں اور معاملات کو نسلی بنیادوں پر نہیں جانچتے۔ یہ سب بیان کرنے کے بعد وہ اس امر پر مصر رہے کہ نواز شریف کی معاشی پالیسیاں مرتب کرنے میں وہ دل وجان سے حصہ ڈال رہے ہیں۔پاکستان کو ترقی وخوش حالی کے راستے پرگامزن کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو افسر شاہی کے کنٹرول سے نجات دلواکر نجی صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔غلام اسحاق خان کو لہذا انہوں نے تاریخ کی غلط سمت پر کھڑا بتایا۔ اس ملاقات کے چند مہینوں بعد میری ان سے ایک سفارتی تقریب میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں پھکڑپن سے آگاہ کیا کہ غلام اسحاق خان کے لئے اب نواز شریف کے حوالے سے بس بھئی بس ہوچکا ہے۔وہ آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بھی وقت حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔سرتاج صاحب نے میرے خدشات کی تردید کے بجائے مجھ سے ا تفاق کیا۔ اگرچہ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ نواز شریف حکومت توڑنے کے بعد غلام اسحاق اور نواز شریف دونوں ہی نقصان میں رہیں گے۔ان دونوں کا انفرادی نقصان شاید برداشت کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان مگر اس حکومت کو وقت سے قبل گھر بھیجنے کی وجہ سے اقتصادی پیشرفت کے امکانات آنے والی کئی دہائیوں تک کھودے گا۔ یہ کالم لکھتے ہوئے ان کا یہ فقرہ یاد آیا تو ان کی دوراندیشی سراہنے کو مجبور ہوگیا ہوں۔
سرتاج صاحب کے لئے سب سے کڑا وقت بطور صحافی میں نے اس وقت دیکھا جب وہ کارگل جنگ کا حل ڈھونڈنے بطور وزیر خارجہ 11جون 1999 کے روزنئی دہلی پہنچے۔میں ان سے قبل وہاں پہنچے پاکستانی صحافیوں کے گروہ میں شامل تھا۔ہمارے وہاں پہنچتے ہی بھارتی حکومت نے اس گفتگو کی ریکارڈنگ اپنے اخبارات کے لئے لیک کردی جو جنرل مشرف نے کارگل جنگ کے دوران چین کے شہر شنگھائی سے اپنے چیف آف سٹاف جنرل عزیز سے کی تھی۔ سرتاج صاحب کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات اس لیک کے بعد بے نتیجہ ہی رہنا تھی۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو سرتاج صاحب کو بھارت میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کے علاوہ اسلام آباد کی وزارت خارجہ سے بھی مشورہ آیا کہ چپکے سے پاکستان واپس آجائیں اور بھارتی میڈیا سے ملاقات نہ کریں۔
پاکستانی وزیر خارجہ کی پاکستانی ہائی کمیشن کے تہہ خانے میں واقع وسیع ہال میں پریس کانفرنس کا مگر اعلان ہوچکا تھا۔ ان دنوں بھارت میں الیکٹرانک میڈیا بھی سرعت سے پھیل ر ہا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق سو سے زیادہ بھارتی صحافی جن کی اکثریت نوعمر لڑکوں اورلڑکیوں پر مشتمل تھی اس ہال میں جمع تھے۔ سرتاج صاحب نے خود کو دئے مشوروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان سے گفتگو کا وعدہ نبھانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ سے سوال پوچھنے کے بجائے نوجوان بھارتی صحافیوں کا گروہ اخباروں میں لیک ہوئی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر گلی کے لونڈوں لپاڑوں کی طرح آوازیں کستارہا۔ سرتاج صاحب نے ایک لمحے کو بھی اپنے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہونے نہیں دی۔ بضد رہے کہ ان سے کوئی سوال بھی پوچھا جائے۔سوال کے انتظار میں کافی دیر تک ڈائس پر براجمان ر ہے اور بالآخر یہ کہہ کر اٹھے کہ آپ جو بھی سوچتے رہیں بھارت اور پاکستان کو کارگل جنگ کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔ بہتر یہی ہوتا کہ ہم دونوں ملک اپنے طورپر کوئی راہ ڈھونڈلیتے۔ یہ کہنے کے بعد وہ پاکستان لوٹنے کے لئے ایئرپورٹ روانہ ہوگئے اور چند ہی دنوں بعد 4جولائی 1999 آگیا۔اس روز وزیر اعظم پاکستان امریکہ گئے۔ وہاں کے صدر کلنٹن سے ثالثی کی درخواست ہوئی اور کارگل میں جنگ بندی ہوگئی۔
سرتاج صاحب کے حوالے سے اور بھی کئی واقعات یاد آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کاش اخباری کالم میں ان سب کا ذکر کرسکتا۔ وعدہ رہا کہ آئندہ دنوں انہیں کسی نہ کسی حوالے سے یاد کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت