عالمی بینک نے نئی آنے والی پنجاب حکومت کیلئے سال2025تک کیلئے معاشی اہداف طے کر دیئے

اسلام آباد (صباح نیوز)عالمی بینک نے پاکستان میں عام انتخابات20245میں منتخب ہوکر آنے والی نئی پنجاب کی حکومت کیلئے سال2025تک کیلئے معاشی اہداف طے کر دیئے ہیں جن میں سر فہرست پنجاب کی نئی حکومت نیا پنجاب فنانس کمیشن ایوارڈ بنائے گی جس میں پنجاب کے شہروں اور دیہات میں صوبائی محاصل کی تقسیم کیلئے نئے فارمولا پر اتفاق رائے کیا جائے گا اور اس فارمولا میں متفقہ طور پرآبادی، غربت، پسماندگی، ترقیاتی ضروریات، ریونیو جمع کرنے کی صلاحیت، صوبائی ترجیحات جیسے امور کو فارمولا کا حصہ بنایا جائے گا اور اس کی منظوری دے گی جس کے تحت زیادہ ریونیو جمع کرنے والی پنجاب بھر میں لوکل گورمنٹس کے لوکل ریونیوز میں اضافہ کیلئے مراعات رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ 319اربن اور لوکل ایریاز کے ساتھ ساتھ اضلاع اور پنجاب حکومت کے مجموعی آمدن اور اخراجات کی رپورٹ بھی بناکر عوامی آگاہی کیلئے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

عالمی بینک کی پنجاب ریسورس امپرومنٹ اینڈ ڈیجیٹل ایفیکٹیو پراجیکٹ کے تحت  پنجاب نے گندم، کپاس اور دیگر زرعی اجناس امدادی قیمت پر کسانوں سے خریدنے کیلئے سٹیٹ بینک سے لئے گئے قرض میں سے395ارب روپے کا کماڈٹی سرکلر ڈیٹ واپس کر دیا ہے اور 30جون2024تک اس میںسے143ارب روپے مزید ادا کر دیا جائے گا،پنجاب میں صوبائی بجٹ کا15فیصد پنشن پر خرچ ہو رہا ہے، مستقبل میں اس کے بڑھنے کی رفتار کم کرنے کیلئے  نئے اقدامات کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا،پنجاب بھر میں جائیدادوں پر پراپرٹی ٹیکس کی وصولیوں کو ان کے موجودہ کرایوں کے حساب سے اپ گریڈ کرنے اور صوبائی ریونیو میں بھاری اضافہ کیلئے پنجاب کے6بڑے زون میں معلومات جمع کر کے ریونیو میں اضافہ کیا جائے گا،

اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حدود کے اندر فروخت ہونے والی رہائشی، کمرشل، صنعتی اور زرعی استعمال کی زمین اور تعمیر شدہ جائیدادوں کی مالیت کو مارکیٹ میں رائج مالیت تک لانے کیلئے پنجاب کے6بڑے شہروں میں نئی ویلیو ایشن کا تعین کر کے اسے لاگو کیا جائے گا جس کیلئے نیا ویلیو ایشن ٹیبل اور ٹیکنیک متعارف کروائی جائے گی ،پنجاب میں تمام صوبائی ٹیکس اور لیویز الیکٹرانک پیمنٹ(ای  پیمنٹ کے تحت کروانے)کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس وقت تک23ٹیکس و لیویز ای پیمنٹ کے تحت جمع کروانے کی سہولت ہے جس  میں 30ماہ میں 77ارب روپے جمع ہوئے ہیں جیسے صوبائی تمام ٹیکسوں تک بڑھایا جائے گا،پنجاب حکومت نے ایف بی آر اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ ٹیکس گزاروں کی معلومات کے تبادلہ کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

پنجاب میں رجسٹرڈڈ سیلز ٹیکس گزاروں کی تعداد کو موجودہ40ہزار سے بڑھاکر77ہزار500تک لے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے پنجاب میں سروسز سیکٹر میں جنرل سیلز ٹیکس کرنے والے رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں کی تعداد کو1لاکھ16ہزار سے بڑھاکر1لاکھ45ہزار تک لے جانے کا ہدف رکھا گیا، پنجاب میں ریونیو اور اخراجات کی ماہانہ رپورٹس ارسال کرنے والے لوکل کونسلز کی تعداد کو 119سے بڑھاکر169کونسلز تک لے جانے کا فیصلہ کیا گیا، پنجاب میں صارفین کو فراہم کی جانے والی آن لائن خدمات کو موجودہ50فیصد آبادی سے بڑھاکر75فیصد آبادی تک لے جایا جائے گا اس وقت10صوبائی خدمات آن لائن فراہم کرنے کی سہولت ہے ،نئے سال میں اسے50صوبائی خدمات تک لے جایا جائے گا ۔پنجاب میں ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ ستریٹیجی بنائی جائے گی اور اس پر عمل درآمد کیلئے ہر سال بجٹ اور عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈنگ لیکر موسمیاتی تباہ کاریوں کی شرح کم کی جائے گی ،پنجاب نے سال2021میں اپنے صوبے کے اندر191ارب روپے کی ٹیکس وصولی کی جیسے اب تک بڑھاکر310ارب روپے تک لے جایا جاچکا ہے اور اب پنجاب فنانس ڈیپارٹمنٹ نئی حکومت کیلئے سال2024-25کیلئے نئے اہداف طے کرے گاپنجاب میں ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کیلئے  پنجاب ٹیکس اتھارٹی تھرڈ پارٹی سے اشرافیہ کے اندرون و ملک اور بیرون ملک اثاثہ جات کی معلومات کے حصول کیلئے تھرڈ پارٹی کے ساتھ معاہدے کرے گی اور پاکستان کے10اہم قومی اداروں کے ساتھ اپنے ٹیکس گزاروں اور ان کے کلائینٹس کی معلومات تک رسائی کیلئے معلومات تک رسائی کے معاہدے کرے گی ،

پنجاب میں کون کونسے محکمے موسمی تباہ کاریوں کیلئے کتنے اخراجات کر رہے ہیں ان کی رپورٹ کو ہر سال اپ ڈیٹ کیا جائے گا پنجاب میں سرکاری خریداریوں میں کمیشن اور کک بیکس کے خاتمے کیلئے عالمی بینک کے اشتراک سے30فیصد مہنگی خریداریاں الیکٹرانک پروکیورمنٹ نظام کے تحت کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے  جس میں سستی اور معیاری خدمات اور اشیا کی فراہمی کرنے والوں کی ہی بولی قبول ہو سکے گی ،پنجاب میں پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کی منظوری دی جا چکی ہے اور اب اس پر عمل درآمد کے موثر رولز نئی حکومت کے دور میں بنائے جائیں گے پنجاب میں ہر سال جون میں پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ اورسال کے اختتام تک اصل صرف ہونے والے بجٹ کو اسمبلی سے منطور کئے گئے بجٹ کے مطابق ہی رکھنے کیلئے  اہداف رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور مالیاتی نظم و ضبط کیلئے ابتدائی سالوں میں صرف10فیصد تک کی  تبدیلی کی اجازت ہوگی۔