اسلام آباد میں بلوچستان سے آئی خواتین کا احتجاج جاری ہے۔ یہ خواتین اپنے گمشدہ لوگوں کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔
ان کا مطالبہ اورموقف ہے کہ ان کے گمشدہ اور لاپتہ ان کے پیاروں کو اول تو رہا کیا جائے، اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہے تو انھیں قانون کے سامنے پیش کیا جائے، اس طرح لوگوں کو لاپتہ یا گمشدہ رکھنا قانونا جائز نہیں۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی اس ایشو پر گزشتہ دنوں لاہور میں صحافیوں کے سوالات کے کھل کر جواب دیے اور ریاست کا موقف پیش کیا۔
جہاں تک نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی بات کا تعلق ہے تو بات وہ بھی حقیقت پر مبنی بات کر رہے ہیں، پاکستان کا نظام انصاف دہشت گردوں کو سزا دینے کے قابل نہیں ہے۔ اے پی ایس پشاور سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے ملٹری کورٹس بنائی گئیں۔
یہ کورٹس ایک مخصوص مدت کے لیے قائم ہوئی تھیں ، اس وقت یہی توقع کی گئی تھی کہ اس دوران ملک کا سول نظام انصاف اپنے اندر ایسی اصلاحات لے آئے گا کہ وہ جیٹ بلیک دہشت گردوں کو سزائیں دے سکے۔
یہ ملٹری کورٹس دو سال تک قائم رہیں اور پھر ختم ہو گئیں۔ لیکن اس دوران نظام انصاف جوں کا توں رہا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ وہ دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کو پکڑتے ہیں لیکن نظام انصاف کی کمزوریوں کی وجہ سے انھیں ریلیف مل جاتا ہے جس کی وجہ سے ریاست مشکل میں آجاتی ہے کیونکہ رہائی کے بعد یہ دہشت گرد پھر فعال ہوجاتے ہیں۔
میں نگران وزیر اعظم کے اس سوال کو بھی غلط نہیں سمجھتا کہ بلوچستان میں جس طرح پنجابیوں کو مارا جا رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟ کیا ہمارا نظام انصاف بلوچستان میں پنجابیوں کے قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو سزا دے سکا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں چینی باشندوں کو قتل کرنے والے کون ہیں؟
بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکیں اور ان کے مسلح گروہ کون چلا رہا ہے اور ملک کے اندر ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ ان پہلووں پرکتنا کام ہوا ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔اس سنگین صورتحال کے باوجود وفاق کا موقف قانون کی نظر میں کمزور ہے، انسانی حقوق کے تناظر میں بھی کمزور ہے۔ ریاست کسی شہری کو زبردستی لاپتہ کرنے کا حق نہیں رکھتی ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی قابل توجہ ہے، دنیا میں کوئی بھی ریاست دہشت گردوں، قاتلوں اور علیحدگی پسند مسلح لشکروں کو کھلا نہیں چھوڑ سکتی اور نہ ہی انھیں من مرضی کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ انسانی حقوق کی آڑ اور قانونی ابہام کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہورہا ہے، نظام انصاف کی کمزوریاں بھی عیاں ہوچکی ہیں، ایسے ریاست کے کیا آپشن بچتا ہے؟ ملک بھی تو چلانا ہے۔
آپ دیکھیں افغانستان سے جن لوگوں کو لاکر ملک میں دوبارہ آباد کیا گیا ہے، اس سے ملک میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ہمارے سیکیو رٹی ادارے ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ لیکن ہم ان دہشت گردوں کو فوری سزا دینے کے قابل نہیں ہیں۔
ریاست کا یہ موقف بھی ہے اور گلہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کو انتہائی جدوجہد کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے لیکن انھیں ضمانت پر رہا مل جاتی ہے بلکہ عام مقدمات کی طرح ان کے مقدمات بھی عدالتوں میں برسوں تک زیر التوا رہتے ہیں۔
اس دوران ضمانت پر رہا یہ لوگ دہشت گردی بھی جاری رکھتے ہیں، ایسے میں ریاست کیا کرے؟ اگر دہشت گردی اور سہولت کاری کے الزام میں کسی کو گرفتار کیا جائے تو انسانی حققوق کی آڑ لے کر کچھ لوگ ریاست پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔
اصولا توان سے بھی تفتیش ہونی چاہیے کہ وہ جن معاملات میں ریاست کو ملوث کررہے ہیں، ان کے شواہد بھی پیش کریں تاکہ ملزمان کی نشاندہی ہوسکے، اگر ریاستی اداروں پر الزام لگانے والے اشخاص یا تنظموں کے عہدیدار شواہد پیش نہ کرسکیں تو ان کے محاسبے کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظام انصاف اور ریاستی اداروں کو مل بیٹھ کر کوئی روڈ میپ تیار کرنا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے مقدمات کی جلد سنوائی اور سزا ممکن ہوسکے، اگر ملک میں ملٹری کورٹس قابل قبول نہیں ہیں تو سول عدالتیں دہشت گردوں اور ریاست پر حملہ کرنے والے ملزمان کو ان کے جرائم کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق سزائیں دینے کا کوئی راستہ نکالیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشت گردوں، شرپسندوں، ان کے سہولت کاروں اور فنانسرزکو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلح لشکروں، دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے سامنے ریاست بے بس اور لاچار ہو جائے تاکہ یہ لوگ ملک میں دندناتے پھریں، بے گناہ لوگوں کا قتل عام کریں، لوٹ مار کریں، فوجی تنصیبات کو نذر آتش کردیں۔
فوجی شہدا کی یادگاروں کو تباہ کردیں، ان کی توہین کریں۔ ہمیں ریاست کی مجبوریوں اورضرورتوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے آئین و قانون سے ماورا کوئی گوانتاناموبے بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے،کہ گرفتار دہشت گردوں اور شرپسندوں کو کسی پاکستانی گوانتاناموبے میں بند کر دے تا کہ ملکی عدالتوں کا دائرہ اختیار وسماعت ہی ختم ہو جائے۔اس لیے ریاست کے پا س کوئی حل نہیں ہے۔
وہ مجبور بھی ہے اور بے بس بھی ہے کیونکہ سٹسم کے اندر ہی مسائل ہیں، ریاست پاکستان کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ صاف بات ہے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے تو ڈنکے کی چوٹ پر آئین و قانون توڑ ڈالتے ہیں، سیکیورٹی اداروں پر حملہ کرتے ہیں، فوجی افسروں اور دیگر ریاستی اداروں کے افسروں اور ملازموں قتل کرتے ہیں۔
بے گناہ افراد کو علاقائی اور مسلکی تعصب کی بنا پر قتل کردیتے ہیں لیکن ریاست پاکستان کے پاس قانون توڑنے کا آپشن نہیں ہوتا، ریاست نے غیر قانونی اقدامات اور جرائم کا جواب بھی قانون کے دائرے میں رہ کر ہی دینا ہے۔ ریاست نے آئین سے انحراف کرنے والوں کے ساتھ بھی آئین کے دائرے میں ہی نبٹنا ہے۔
اس لیے جب ریاست آئین وقانون سے باہر نکلے گی تو اس کا کام کتنا بھی جائز کیوں نہ ہو، کتنا ہی ملک کے مفاد میں کیوں نہ ہو، ہمارے دوستوں کا ایک گروہ دہشت گردوں اور ریاست پر حملہ آوروں کے لیے انسانی حققوق کا جھنڈا اٹھائے گا اور ریاست پاکستان کو ظالم اور فاشسٹ ہی کہے گا۔ یہی حقیقت ہے۔ اسلام آباد میں جو احتجاج جاری ہے۔
آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرنا شہریوں کا قانونی اور جمہوری حق ہے، لیکن دوسرے موقف پر بھی غور ضرور کیا جانا چاہیے ، اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آئین وقانون کے دائرے میں ان کے مطالبات کو جائز قرار دے رہی ہیں۔ ریاست الزامات کی زد میں ہے ، ریاست کا اہم ترین آرگن نظام انصاف خاموش ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس