جنرل قمر جاوید باجوہ کے برعکس جنرل عاصم منیر میڈیا والوں سے دور رہتے ہیں یوں ملکی صورت حال سے متعلق ان کی سوچ کا اندازہ صرف فوج اور اسکے متعلقہ اقدامات سے لگایا جاتا ہے تاہم انکی تقاریر اور بالخصوص فی البدیہہ تقاریر بھی بڑی حد تک انکی سوچ اور فکر کی عکاس ہوتی ہیں ۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پاکستان بھر سے بلائے گئے کسانوں کا کنونشن ، کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔ حسبِ روایت جنرل عاصم منیر نے لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ دی اور فی البدیہہ تقریر شروع کردی جس میں وہ بار بار قرآنی آیات کے حوالے دے رہے تھے ۔ انکی تقریر کا خلاصہ یہاں پیش کررہا ہوں جس سے بڑی حد تک انکی سوچ اور عزائم کا اندازہ ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ:زراعت اور لائیواسٹاک کا پیشہ انبیائے کرام کا پیشہ رہا ہے جس سے کسانوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اس پیشے میں محنت ہے ، صبر ہے ، ڈسپلن ہے اور پھر انعام ہے ۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں کہ : انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی اس نے سعی کی ہو اور کسان کو بھی صرف وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے ۔ یوں اس تناظر میں کسانوں کی اہمیت ہمارے ہاں مسلمہ ہے لیکن اس موقع پر میں ملکی حالات کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا کیونکہ ان دِنوں ایک ایسا ماحول بنادیاگیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ (خاکم بدہن) جیسے پاکستانی ریاست بکھر رہی ہے ۔ یہ فضا سوشل میڈیا اور جعلی خبروں کے ذریعے بنائی جارہی ہے حالانکہ انسانیت کی پوری تاریخ میں دو ریاستیں اسلام اور کلمے کی بنیاد پر بنی ہیں ۔ ایک ریاست طیبہ اور دوسری ریاست پاکستان ۔ میں اسے ریاست مدینہ نہیں کہتا کیونکہ قرآن میں اس کا نام یثرب ہے۔ میں اسے ریاست طیبہ کہتا ہوں۔ دوسری قدر مشترک ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کی یہ ہے کہ ریاست طیبہ کیلئے بھی پہلے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ ہوئی جبکہ پاکستان کیلئے بھی لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی ۔ ایک اور قدرمشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ریاستیں ستائیس رمضان المبارک کو معرض وجود میں آئیں۔ سعودی عرب کو بھی اللہ نے قدرتی نعمتوں سے نوازا لیکن پاکستان کو بھی بے تحاشہ نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ہمارے پاس برف سے ڈھکے گلیشیرز اور دریاؤں کا صاف پانی ہے ۔ ذرا عربوں سے پانی کی اس نعمت کی اہمیت کے بارے میں پوچھ لیں۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے پاس ہے۔ ہمارے پھلوں مثلا آم ، کینو وغیرہ کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ سندھ کے صحراوں کے نیچے جو معدنیات ہیں اسکی مالیت کا تخمینہ چار کھرب ڈالر لگایا گیا ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے معدنی ذخائر کا تخمینہ چھ کھرب ڈالر ہے۔ ہم نے اگر ان نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا تو قصور ہمارا ہے ۔قرآن پاک کی یہ آیت کہ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ہمارے ملک کے اوپر صادق آتی ہے ۔پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں ٹی وی آیا تھا جبکہ انڈیا میں ستر کی دہائی میں آیا۔ (ان سب کچھ کے باوجود ) ہماری یہ ابتر حالت اس لئے ہیکہ ہم نے قائد اعظم کے بتائے ہوئے اصولوں ایمان ، اتحاد اور تنظیم کو چھوڑ دیا۔ ایمان کے ہم نے ٹکڑے کردئیے ۔ ہم ان جھگڑوں میں پڑ گئے کہ جن کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ۔ کوئی شیعہ ہے، کوئی سنی ، کوئی دیوبندی تو کوئی بریلوی تو کوئی اہل حدیث ۔ اللہ نے کہا ہے کہ اس کا فیصلہ مجھے کرنا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں لیکن ملاؤں کے پیچھے لگ کر ہم نے مذہب کو تقسیم کیا۔ ہم نے اپنے ہاں اتحاد کو بھی نہیں چھوڑا جبکہ تنظیم کا تو جنازہ نکال دیا۔ اقبال نے کہا تھا کہ :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ۖ
لیکن ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی تہذیب وثقافت اپنانے لگے ۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر ہندو تہذیب کو اپنا لیتے ۔ یہ ملک تو ہم نے اس لئے بنایا تھا کہ یہاں ہم اپنی ثقافت اور دین کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ ان حقائق کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے مایوسی اور ہیجان کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ۔اس لئے میں سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہتا ہوں ۔یہ سوشل میڈیا آپ سے وہ سارے کام کرواتا ہے جس سے ہمارے مذہب اور ثقافت نے منع فرمایا ہے ۔ مثلا قرآن میں ہے کہ :اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جاایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاو۔یوں اللہ خبر کو پھیلانے سے قبل تحقیق کا حکم دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے ۔ اس میں تحقیق کا آپشن نہیں بلکہ فارورڈ ، کٹ اور پیسٹ کے آپشن ہوتے ہیں ۔
اسی طرح قرآن میں اللہ نے ہدایت کی ہے کہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاو اور القابات سے نہ پکارو لیکن سوشل میڈیا میں گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جب ہم یہ حرکتیں کریں گے تو اللہ کی نعمت کیوں ہماری طرف آئے گی؟ ہمارے ملک کا 43فی صد طبقہ زراعت سے منسلک ہے لیکن یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم ہر سال ایک ارب ڈالر کی دالیں باہر سے منگواتے ہیں۔اس لئے پاکستانی عوام کو چاہئے کہ جب ان سے ووٹ مانگنے کیلئے کوئی آئے تو وہ ان کے سامنے زراعت کو ترقی دینے کیلئے کوشش کی شرط رکھیں۔ بدقسمتی سے نعمتوں سے مالامال یہ ملک اس وقت مافیاستان بن چکا ہے اور ان مافیاؤں کی سرکوبی کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا ۔فوج نے اس لئے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا ہے ۔ آئی ایس آئی ایف سی اس لئے بنایا گیا کہ اس کے تحت بیرونی سرمایہ کاری لائی جاسکے اور خواہ جس کی بھی حکومت آئے ہم اپنا یہ کام کرتے رہیں گے ۔ آپ لوگوں نے مایوس نہیں ہونا ہے کیونکہ مایوس صرف کافر ہوتے ہیں ۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ :اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ہے ۔ اللہ ہی نے ہمیں صبر کا درس دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ہم اگر صبر اور شکر سے کام لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔
ترجمہ: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
بشکریہ روزنامہ جنگ