ملک میں دو چار محب وطن ہی رہ گئے ہیں، ان کی اب قدر کرنا چاہیے، ان دو میں سے ایک تو میں ہوں جو ہر وقت خود کو تھپکی دیتا رہتا ہوں کہ اب تمہی پاکستان کے وفار دار ہو، غداروں کی پروا نہ کرو، ڈٹے رہو، دوسرا محب وطن وہ ہے جو سائے کی طرح بلکہ سائے کی صورت میرے ساتھ رہتا ہے، چنانچہ میں یا تو دھوپ میں باہر نکلتا ہوں، جب مجھے اپنا سایہ اپنے قد سے بھی بڑا لگتا ہے یا رات کو معمولی پاور کے بلب کی روشنی میں کہ اس صورت میں بھی میرا سایہ میرا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ بس اب ہم دو ہی محب وطن رہ گئے ہیں، مگر زمانہ نہایت قدر ناشناس ہے، اسٹیبلشمنٹ کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ مجھے ملک کا وزیر اعظم بنا دے، اس کے بعد میں چن چن کر پاکستان کے غداروں سے بدلہ لوںگا، پہلے ان کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائوں گا اور قوم کو بتائوں گا کہ جو بھی میرے ساتھ نہیں ہے وہ غدار ہے، غدار ہے، مودی کا یار ہے، پھر ان کے خلاف مقدمے چلائوں گا اور مجھے یقین ہے کہ اگر ان میں سے کسی کے خلاف غداری کا کوئی ثبوت نہ ملا تو بھی ہماری عدالتیں میری بات پر یقین کرکے انہیں ایسی بدترین سزائیں سنائیں گی کہ یہ زندگی بھر کسی کو منہ نہ دکھاسکیں گے!
میرا ارادہ یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ بعد میں دائر کروں گا، پہلے جیل میں بھجوائوں گا، ان سے چکی پسوائوں گا، انہیں ایسی کال کوٹھڑی میں رکھوں گا جہاں گرمیوں میں پنکھا اور سردیوں میں کمبل تک نہیں ہوگا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ غداروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا، چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بنایا گیا، استاد دامن کی دھوتی میں سے بم برآمد کیا گیا، اور ان کے ساتھیوں ولی خان پر غداری کے مقدمے بنائےگئے، نواب بگتی کو توایسی جگہ مارا گیا جہاں مرنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ہم نے تمام بنگالیوں کو غدار قرار دے کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر ہی دم لیا۔ اور ہاں اپنے حبیب جالب پر صرف مقدمے ہی قائم نہیں ہوئے، انہیں جیل ہی نہیں بھیجا گیا، بلکہ پولیس نے سرعام انہیں پھینٹی بھی لگائی!۔
اگر ان ’’غداروں‘‘ کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی غفلت سے کام نہیں لیا گیا تو آج کے غداروں کو کھلا کیوں چھوڑا گیا ہے۔ بھلا یہ کوئی بات ہے کہ ہم نے کسی پر ہائی جیکنگ اور اقامہ کا مقدمہ بنایا، قیدتنہائی میں رکھا، ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا، مگر اس کے بعد؟ بیٹی، بیٹوں، بھائی، بھتیجوں کو نشانہ بنایا، کسی کی کار سے ڈھیروں چرس برآمد کی گئی، مگر کیا فائدہ ہوا، غدار عوام آج بھی ان کے ساتھ ہیں، خواجہ سعدرفیق، احسن اقبال، خورشید شاہ اور بیسیوں دوسرے غدار آج بھی کھلے عام پھرتے ہیں، مگر نتیجہ وہی ٹائیں ٹائیں فش؟
قوم کے کھربوں روپے لوٹنے والے آج بھی لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہیں، انڈیا کی ایجنٹی کرتے ہیں، مودی کے ساتھ یاریاں نبھاتے ہیں مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں، ٹھیک ہے پرویز رشید پر تشدد کیا گیا ان کی چمڑی ادھیڑ دی گئی مگر زندہ تو وہ پھر بھی رہا بس اس کی بینائی پر اثر پڑا ہمارے درمیان کچھ ایسے بے حمیت بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بصارت سے زیادہ بصیرت قیمتی چیز ہے ایسے لوگوں کی آنکھیں نکال دینا چاہئے اور پھر پوچھنا چاہئے کہ بصارت اور بصیرت میں سے کون سی چیز قیمتی ہے؟ ہمارے ہاں غدار اب صرف سیاست دان نہیں ہیں بلکہ غدار میڈیا بھی ان کا ہمنوا ہے ۔’’جیو‘‘ کے میر شکیل الرحمان کو بغیر کسی مقدمے کے آٹھ مہینے قید رکھا گیا۔مگر اس سے کیا فرق پڑا موصوف آج بھی دندناتے پھرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ کئی ورکنگ جرنلسٹ بھی اپنی سوچ اور عمل کی وجہ سے نشانے پر آئے ایک آدمی مارا بھی گیا باقی تو آزاد پھرتے ہیں نا!میں اور میرا سایہ کب تک ان غداروں کا مقابلہ کرتے رہیں گے ؟کسی ایک طبقے میں کوئی ایک غدار ہو تو اس کا رونا بھی رویا جائے مجھے تو آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے، ماضی میں ایسے غداروں سے صحیح طرح نمٹا گیا ایک غدار وزیر اعظم کو کال کوٹھڑی میں پھینکا گیا اور پھر اسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اس دن مجھ ایسے محب وطن کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
مگر غدار تو آج بھی ہم محب وطن لوگوں کی راتوں کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں ۔یہ موضوع ایسا ہے کہ میں اس بے حس کی داستان کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا میں یہی سوچ کر کڑھتا رہتا ہوں کہ اکیلا میں اور میرا سایہ کب تک ان غداروں کے خلاف لڑتے رہیں گے ۔ آج تک کسی کی نظر مجھ محب وطن پر نہیں پڑی مجھے اقتدار کا کوئی شوق نہیں صرف پاکستان سے محبت اور پاکستان دشمنوں کا قلع قمع کرنا میری زندگی کا واحد مشن ہے ۔ وزیر اعظم بنانے والے کی نظر اللہ جانے آج تک مجھے کیوں نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں ۔میں نہیں چاہتا کہ یہ داغ سینے پر لیکر اس دنیا سے رخصت ہو جائوں کہ میں پاکستان کو بچا سکتا تھا، مگر افسوس کسی کی نظر اس گوہر نایاب پر نہیں پڑی افسوس اکثر لوگوں کو علم نہیں کہ اقبال نے ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے جہاں میں دیدہ ور پیدا
والا شعر میرے بارے میں کہا تھا !
بشکریہ روزنامہ جنگ