گوادر سے ایک ایسی کروکر مچھلی پکڑی گئی ، ایک کروڑ 34لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوئی


گوادر(صباح نیوز)بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر سے ایک ایسی کروکر مچھلی پکڑی گئی ہے جو کہ ایک کروڑ 34لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوئی۔

جانوروں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے کوبتایا کہ یہ مچھلی جیونی کے علاقے سے پکڑی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس مچھلی کا گوشت فی کلو دولاکھ 80ہزار روپے میں فروخت ہوا۔ اب تک یہ سب سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے والی کروکر مچھلی تھی۔چند روز قبل ماہی گیروں کی ایک ٹیم نے 18کروکر مچھلیاں پکڑی تھیں لیکن یہ مجموعی طور پر8لاکھ روپے تک فروخت ہوئی تھیں۔

بہرام بلوچ نے بتایا کہ یہ مچھلی جمعرات کے روز جیونی کے علاقے سے پکڑی گئی تھی جو کہ ایرانی سرحد کے قریب ماہی گیروں کی ایک بستی ہے۔فون پر رابطہ کرنے پر سدھیر بلوچ نے 48کلو وزنی اس مچھلی کو پکڑنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک کروڑ34لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوئی۔اس سے قبل ساجد عمر نامی ماہی گیر اور ان کے ساتھیوں نے گوادر کے علاقے گنز سے 18 کروکر مچھلیاں پکڑی تھیں لیکن وزن کم ہونے کے باعث وہ مچھلیاں مجموعی طور پر8لاکھ روپے تک فروخت ہوئی تھیں۔سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ان مچھلیوں کی قیمت کا انحصار ان کے ایئر بلیڈر پر ہوتا ہے جس میں ہوا بھرنے کی وجہ سے وہ تیرتی ہیں۔’جس مچھلی کا حجم بڑا اور وزن زیادہ ہوگا، اس کا بلیڈر بھی بڑا ہوگا۔

دوسرا نر کروکر مچھلیوں کے بلیڈر کا سائز بڑا ہوتا ہے، اس لیے مادہ کروکر کے مقابلے میں نر کروکر کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جیونی سے پکڑی جانے والی نئی کروکر مچھلی کا وزن 48کلو سے زیادہ تھا جس کی وجہ سے یہ زیادہ قیمت پر فروخت ہوئی ۔ماہرین کے مطابق اس مچھلی کو کر کر کی آواز کی وجہ سے کروکر کہا جاتا ہے جو کہ یہ اپنی مادہ کو آواز دینے یا دوسرے ساتھیوں سے رابطے کے لیے نکالتی ہے۔ اردو میں اس کا نام سوا ہے۔گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات اور ماہرِ سمندری حیات عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ ‘بعض مچھلیاں اپنے گوشت کی وجہ سے بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہیں لیکن کروکر کے حوالے سے معاملہ مختلف ہے۔

‘انھوں نے بتایا کہ کروکر مچھلی کا ایئر بلیڈر انسانی جسم کے اندرونی اعضا میں دورانِ سرجری لگائے جانے والے ٹانکوں بالخصوص دل کے آپریشن میں سٹچنگ وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔گوادر میں محکمہ فشریز کے سینیئر آفیسر احمد ندیم نے بتایا کہ سرجری میں استعمال کے لیے کروکر مچھلی کے ایئر بلیڈر کے دھاگے بنائے جاتے ہیں۔’ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ جیلی کی طرح جذب ہو جاتے ہیں اور زخم کو جما دیتے ہیں۔ سرجری میں ٹانکے لگانے کے بعد ان کو نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ایئر بلیڈر سے بننے والے سوپ کو چین، یورپ اور دیگر سرد ممالک میں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ‘اسے ایک پرتعیش غذا کا درجہ حاصل ہے۔’احمد ندیم نے بتایا کہ جسمانی طاقت کو بڑھانے کے علاوہ کیلشیم زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی کے لیے بھی مفید سمجھی جاتی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ کروکر مچھلی کا ایئر بلیڈر کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔کروکر مچھلی کا ایک اور استمعال بھی اس کی مانگ اور قیمت میں اضافے کی وجہ ہے۔

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ کاسمیٹکس اور سوپ میں استعمال ہونے کے علاوہ اس کا بلیڈر شراب کی صفائی کے کام آتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘شراب کی صفائی کے لیے سور یا گائے کی چربی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اسی لیے کئی لوگ مذہبی عقائد کی وجہ سے صرف اس شراب کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ کروکر مچھلی کی بلیڈر سے صاف کیا گیا ہو۔’محکمہ فشریز کے سینیئر اہلکار احمد ندیم نے بتایا کہ ماضی میں کروکر مچھلی کے ایئر بلیڈر کو مقامی طور پر خشک کیا جاتا تھا اور بعد میں سری لنکا بھیجا جاتا تھا جو کہ بمشکل سو روپے میں بکتا تھا۔

فشریز کے سینیئر افسر نے بتایا کہ بعد میں کراچی میں فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تو اس مچھلی کی قیمت پانچ ہزار روپے تک پہنچ گئی جو اب لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔’اب کولنگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کروکر کے ایئر بلیڈر کو یہاں نہیں نکالا جاتا بلکہ کراچی لے جایا جاتا ہے تاکہ یہ ضائع یا خراب نہ ہوں۔’ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے بتایا کہ مئی سے جون ان مچھلیوں کے عروج کا موسم ہوتا ہے۔’یہ انڈے دینے کا وقت ہوتا ہے جس کے لیے ایران اور پاکستان کا درمیانی سمندری علاقہ موزوں ترین ہے اسی لیے یہ یہاں بڑی تعداد میں پکڑی جاتی ہیں۔’

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ‘ضروری نہیں کہ ہر ایک اس کے شکار میں کامیاب ہو۔ بعض ماہی گیر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مہینہ بھر اس کے شکار کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کو کامیابی نہیں ملتی۔’انھوں نے بتایا کہ کروکر کے شکار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں لیکن اس کی آواز کی مدد سے اس کی موجودگی کا پتہ چلایا جاتا ہے۔’ایک مقامی طریقہ ہے جس میں پورے غول کو ہی جال میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کو بلوچی زبان میں اڑنگا کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک پائپ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے منہ پر ایک بوتل باندھ دی جاتی ہے۔”ماہر شکاری اس پائپ کو سمندر میں ڈال کر اس کا دوسرا سرا اپنے کان سے لگا کر کروکر کی آواز سنتے ہیں۔ اس سے وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ مچھلی کہاں اور کتنے فاصلے پر ہے اور کتنی تعداد میں ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘جگہ کا تعین کرنے کے بعد وہ اس مقام پر جال پھینکتے ہیں۔”بعض لوگ جو ماہر نہیں ہوتے، وہ اوپر سے ہی سننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی آواز آ رہی ہے یا نہیں۔ یہ لوگ ادھر جاتے ہیں جہاں لہریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں اور ان لہروں سے کچھ فاصلے پر جال پھینکتے ہیں۔”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس فائبر کی بنی سپیڈ بوٹس ہیں جو اپنے جال شام کو پھیکتے ہیں اور پھر اگلے روز نکالتے ہیں۔ اگر ان کے جال میں کچھ نہیں ہو، تو وہ جال دوبارہ پھینکتے ہیں اور اس عمل کو شکار کے موسم کے دوران دہراتے رہتے ہیں۔’اہم بات یہ ہے کہ کروکر کا شکار ایک ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے۔

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ‘یہ صرف اسی موسم میں ہی ساحلی علاقوں میں انڈے دینے کے لیے آتی ہے۔’سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ‘کسی بھی جانور کے تحفظ کے لیے انتظامات کے بغیر حد سے زیادہ شکار ہو تو وہ ضرور معدومی کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔’لیکن ساحلی بلوچستان میں جہاں مقامی آبادی کے بڑے حصے کا ذریعہ معاش ماہی گیری پر منحصر ہے، اس مچھلی کے شکار پر پابندی تو کام نہیں کر سکتی۔سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ‘کروکر کے تحفظ اور اس کی نسل کو بڑھانے کے لیے اقدامات ضرور کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ افسوس کے ساتھ یہاں کم ہوتی ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ پابندی لگانے یا کروکر کے شکار کو کنٹرول کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ‘اس سلسلے میں تحقیق ہو کہ اس مچھلی کی افزائش نسل کے علاقے کون سے ہیں اور پھر ان کو کارممنوعہ علاقہ قرار دیکر اس کی نسل کو معدومی کے خطرے سے دوچار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔’بہرام بلوچ نے بتایا کہ ایرانی ماہی گیر بھی کروکر مچھلی کی بڑی تعداد میں شکار کرتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے علاقے جیونی میں بھی اس کے زیادہ شکار ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ایران کے قریب ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایرانی کے سمندری حدود میں بڑے بڑے ٹرالروں اورممنوعہ جالوں کے ذریعے ماہی گیری کی اجازت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کروکر مچھلی ایران اور اس سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں زیادہ ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سمندری حدود میں ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے باعث اس نایاب مچھلی کے نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔