اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ سارے مل کر فیصلہ کریں کہ دنیامیں اس وقت کیا چل رہا ہے اس حوالہ سے بچوں کوتعلیم دیں ۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بلوچستان کے دور دراز علاقہ میں ایک درخت کے نیچے جو ایک استاد پڑھا رہا ہے وہ بچوں کو کیا لائف اسٹائل سکھائے گا، حقائق کوتسلیم کرنا ہو گا، یاتوکہہ دیں کہ تعلیم وفاق کانہیں بلکہ صوبوں کا سبجیکٹ ہے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ دیہات میں اسکول میں مویشی بندھے ہوتے ہیں، دیواریں نہیں ہوتیں اور پینے کا صاف پانی دستیاب نہیںاس کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں۔
جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزارکے سامنے ایک خاتون 100سے زائد بھیک مانگنے والے بچوں کو پڑھاتی تھی اسے وہاں سے ہٹادیا گیا۔ جبکہ بینچ نے بچوں کی اسمگلنگ اوراغواکے کیس میں ڈائریکٹر جنرل زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی (زارا)کو آئندہ سماعت ادارے کی کارکردگی رپورٹ کے ساتھ طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے زندگی ٹرسٹ کراچی کی جانب سے سیکرٹری وزارت قانون وانصاف اوردیگر کے توسط سے وفاق پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔
درخواست میں اسکول کی سطح پر مہارت کی بنیاد کی تعلیم دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے سلمان اکرم راجہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان، پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل وسیم ممتاز ملک، خیبرپختونخوا کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس اور بلوچستان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل محمد ایاز خان سواتی پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ میں جواب جمع کروادیا ہے اور جواب کی کاپی آج ہی بینچ کے ارکان کو مل جائے گی۔ بینچ کوبتایا گیا کہ صرف پنجاب کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا ہے اوردیگر کسی صوبے کی جانی سے جواب نہیں کروایا گیا۔ تینوں صوبوں کی جانب سے جواب جمع کروانے کے لئے مزید مہلت کی استدعا کی گئی۔ بینچ نے ہدایت کی کہ 10روز میں جواب جمع کروایا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقہ میں ایک درخت کے نیچے جو ایک استاد پڑھا رہا ہے وہ بچوں کو کیا لائف اسٹائل سکھائے گا، حقائق کوتسلیم کرنا ہو گا، یاتوکہہ دیں کہ تعلیم وفاق کانہیں بلکہ صوبوں کا سبجیکٹ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ سارے مل کر فیصلہ کریں کہ دنیامیں اس وقت کیا چل رہا ہے اس حوالہ سے بچوں کوتعلیم دیں ۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ دیہات میں اسکول میں مویشی بندھے ہوتے ہیں، دیواریں نہیں ہوتیں اور پینے کا صاف پانی دستیاب نہیںاس کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں نے ایک گائوں میںدیکھا کہ میٹرک کی کلاس میں تین بچیاں ہیں جبکہ شہر کے اسکول میں 100بچیاں ہیں، سیاسی بنیادوں پر اسکول بنادیئے جاتے ہیں، ایف سکس اسلام آباد کے ایک پارک میں واک کے لئے جاتا ہوں وہاں پر بچوں کوپڑھاتے ہیں یہ تواسلام آباد کاحال ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزارکے سامنے ایک خاتون 100سے زائد بھیک مانگنے والے بچوں کو پڑھاتی تھی اسے وہاں سے ہٹادیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیسے آدھے پاکستان کے برابربلوچستان کوایک سیکرٹری دیکھے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10روز کے بعد تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے ضیاء احمد زاعوان اور روشنی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ویلفیئر آرگنائزیشن کی جانب سے بچوں کی اسمگلنگ ، اغوااور ریکوری کے حوالہ سے دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواستوں میں وزارت بین الصوبائی رابطہ، وزارت داخلہ اوردیگر کے توسط سے وفاقی حکومت کوفریق بنایا گیا ہے۔بینچ کے ارکان نے زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی (زارا)کی کارکردگی کے حوالہ سے سوالات اٹھا دیئے۔
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ زارا قانون2020میں پاس ہوا تاہم پانچ سال گزرنے کے باوجود رولز نہیں بنے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سب سے پہلے وفاقی حکومت رولز بنائے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ڈی جی زارا آئندہ سماعت پررپورٹ کے ہمراہ پیش ہوں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا قانون پر کیا عملدرآمد ہوا اور نتیجہ کیانکلارپورٹ بناکرلائیں۔ دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ بلوچستان سے اغواہونے والا بچہ آگیا؟ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ایاز خان سواتی نے بتایا کہ نہیں آیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بچے کے حوالہ سے خفیہ رپورٹ بینچ کے ارکان کوپیش کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ڈالرز میں رقم مانگی گئی ہے، ہمیں بچہ چاہیئے آپ خفیہ رپورٹ دے رہے ہیں، پھر کہیں گے ان کیمرہ بریفنگ لے لیں، کیوںاب تک جگہ تک نہیں پہنچے،آئی جی پولیس نے بینچ سے کہا تھا کہ ہاتھ ہلکارکھیں اورآپ ریلیکس ہوگئے، ہم نے کہا تھا رپورٹ جمع کروانی ہے کتنی رپورٹس جمع کروائیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ یہ وہی کیس ہے جس میں پتا نہیں کتنے دن سے دھرنا جاری تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دھرنا ختم کروادیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 23دسمبر2024کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بچے کے حوالہ سے رپورٹس، رپورٹس کرتے رہیں گے کام کچھ نہیں کریں گے۔بینچ کے ارکان نے رپورٹ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کوواپس کردی۔ بینچ نے آئندہ سماعت پر ڈی جی زاراادارے کی کارکردگی رپورٹ کے ساتھ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔