کراچی(صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر ، عالمی سطح پر معروف ماہر معاشیات ، بہترین پارلیمنٹرین و سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کی غائبانہ نماز جنازہ ادارہ نور حق میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی امامت میں ادا کی گئی جس میں بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے کارکنوں و ذمہ داران اور پروفیسر خورشید احمد کے حلقہ احباب سے وابستہ مختلف شعبۂ زندگی کے افراد نے شرکت کی ، مرحوم کی مغفرت و درجات کی بلندی ٔاور ان کی تحریکی و تنظیمی اور علمی و فکری خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا ،
قبل ازیں حافظ نعیم الرحمن نے غائبانہ نمازِ جنازہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد کی وفات سے ہم ایک انتہائی محبت و شفقت کرنے والے بزرگ رہنما سے محروم ہو گئے ہیں ، مرحوم تحریک ِاسلامی کا قیمتی اثاثہ تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اقامت ِدین کی جدو جہد کے لیے وقف کر دی ، وہ زمانہ طالب علمی میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کی دعوت سے متاثر ہوئے اور آخری وقت تک تحریک سے وابستہ رہے ، معیشت اور تعلیم ان کا خاص موضوع تھا اور انہوں نے ان شعبوں کے حوالے سے جو خدو خال مرتب کیے تھے ان سے کئی ممالک نے استفادہ کیا اور اپنے اپنے ملک میں معیشت اور تعلیم کو بہتر کیا مگر افسوس کہ پاکستان کی حکومتوں نے ان کی سفارشات کو نظر انداز کیا اور بد قسمتی سے آج ہماری معیشت اور تعلیم دونوں کا بُرا حال ہے ،پروفیسر خورشید احمد تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ میں بہترین پارلیمنٹرین کا اعزاز حاصل کیا،
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد نے اسلامک فائونڈیشن لیسٹر کی بنیاد رکھی اور بیرونِ ملک بھی دعوت دین کا فریضہ انجام دیا ، مرحوم کراچی سے بڑا گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے کیونکہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی تشریف لائے ، برطانیہ میں قیام کے باوجود وہ پورے ملک بالخصوص کراچی کے حوالے سے اکثر رابطے میں رہتے ،نصیحتیں فرماتے رہتے تھے اور حالات پر زنجیدہ و غمگین رہتے تھے ، حافظ نعیم الرحمن نے بتایا کہ بحیثیت ناظم اعلیٰ جب ان کی برطانیہ میں پروفیسر خورشید احمد سے ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے نصیحت کی کہ قومی زبان اُردو کو بچایئے ، اُردو صرف زبان نہیں بلکہ تہذیبی ورثہ اور تاریخ کا تسلسل ہے لیکن ملک میں اُردو کو آئین کے مطابق نافذ نہیں کیا جارہا اس پر وہ بہت دل گرفتہ رہتے تھے ۔
پروفیسر خورشید احمد طویل عرصے تک ماہنامہ ترجمان القرآن سے وابستہ رہے اور حقیقی معنوں میں مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر کے ترجمان تھے اور انہوں نے دلیل کے ساتھ اپنی تحریروں کے ذریعے اس فکر کو پیش کیا ، ان کی گفتگو بھی اتنی مدلل ہوتی تھی کہ مختلف اجلاسوں میں ان کے دلائل کے بعد بات مکمل ہو کر ختم ہو جاتی تھی، مرحوم کی طبیعت میں عجزو انکساری بدرجہ اتم موجود تھی ، لہجے میں کبر ،زعم اور خود نمائی و خودپسندی کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ تھا اور وہ تنظیم اور نظم و ضبط کو حد ِ درجہ اہمیت دیتے تھے ۔ وہ کم عمری میں ہی جماعت اسلامی کی قیادت میں شامل ہوئے اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جب بھی کوئی ٹاسک دیا وہ اسے بحسن و خوبی پورا کرتے تھے ،
تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے ان کی زندگی اور جدو جہد میں رہنمائی موجود ہے ، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تحریک اسلامی بلکہ پوری امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بہترین مربی سے محروم ہو گئے ہیں ،مرحوم نے اپنی ساری زندگی اللہ کے بندوں کو اللہ کے بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانے کی جدو جہد کی ، وہ فنافی الجماعت تھے اور وہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے وہ سپاہی تھے جس نے اسلامی تحریکوں کو نظریاتی محاذ پر درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے مدلل جواب پیش کیا اور فکری رہنمائی کی ، ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔