کراچی(صباح نیوز)کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نوکری سے فارغ اور بھگوڑے ملازمین سمیت 84 ڈیوٹی سے فرار ملازمین کو تنخواہیں جاری کرکے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے نقصان پہنچانے کا انکشاف سامنے آیا ہے جس پر پی اے سی نے نوکری سے فارغ ہونے والے اور بھگوڑے ملازمین سمیت 84 مفرور ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈی ڈی او کو معطل کرکے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔جبکہ پی اے سی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تمام ملازمین کی دوبارہ تصدیق کرانے اور جعلی بھرتیوں کے پیش نظر تمام ملازمین کے ڈگریوں کی تصدیق کرانے کا حکم دے دیا ہے۔
پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نثار کھوڑو کی صدارت میں جمعرات کے روز سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا اجلاس میں کمیٹی کے رکن مخدوم فخرالزمان کراچی واٹر ینڈ سیوریج بورڈ کے چیف آپریٹنگ افسر انجنیئر اسداللہ خان سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی سال 2019ع اور سال 2020ع کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آڈٹ کے اعتراض پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نوکری سے فارغ اور بھگوڑے ملازمین سمیت 84 ڈیوٹی سے فرار ملازمین کو تنخواہیں جاری کرکے ماہانہ لاکھوں روپے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا انکشاف سامنے آیا۔ جس پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج حکام سے استفسار کیا کہ نوکری سے فارغ کئے جانے والے اور ڈیوٹی سے مفرور ملازمین کو تنخواہیں جاری ہونے کا کیا معاملہ ہے، وضاحت کریں۔؟ جس پر چیف آپریٹنگ افسر انجنیئر اسدللہ خان نے پی اے سی کو بتایا کے ڈیوٹی سے مفرور 42 ملازمین کو نوکری سے ڈسمس کردیا گیا ہے اور 2 ملازمین کا انتقال ہوگیا جبکہ نوٹسز جاری کرنے کے بعد 38 ملازمین نے دوبارہ ڈیوٹی پر جوائننگ کی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے پوچھا کہ نوکری سے فارغ کئے جانے والے اور ڈیوٹی سے مفرور ملازمین کو کیسے تنخواہیں جاری ہوئی ہیں؟ یہ سرکاری خزانے کو ماہانہ لاکھوں روہے نقصان پہنچانے کا معاملہ ہے اس لئے جس افسر نے تنخواہیں جاری کی ہیں ان کے خلاف کاروائی کریں۔اس موقعے پر پی اے سی نے واٹر بورڈ کے نوکری سے فارغ کئے گئے اور بھگوڑے ملازمین سمیت 84 مفرور ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈی ڈی او کو معطل کردیا اور معاملے کی محکمہ بلدیات کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔اجلاس میں ڈی جی آڈٹ نے سال 2017ع سے سال 2019 ع تک کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں غیرقانونی بھرتیوں پر آڈٹ نے اعتراض اٹھایا جس پر پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے استفسار کیا کے واٹر بورڈ نے کتنی اور کس طریقے کار کے تحت بھرتیاں کی اور کس قانون کے تحت کہاں سے منظوری لی گئی؟ جس پرچیف آپریٹنگ افسر نے پی اے سی کو بتایا کے رول 34 کے تحت ٹیکنیکل اسٹاف، لیگل کنسلٹنٹ اور ہیلتھ ورکرز کی نچلے گریڈ میں بھرتیاں کی گئی تھی جبکے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ملازمین کی حاضری کے لئے وڈیو سسٹم نصب کیا گیا ہے۔
پی اے سی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے گھوسٹ ملازمین کی نشاندھی کے لئے تمام ملازمین کی فزیکل ویریفیکیشن سمیت جعلی بھرتیوں کے پیش نظر تمام ملازمین کے تعلیمی ڈگریوں کی متعلقہ بورڈز اور یونیورسٹیز سے تصدیق کراکر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔اجلاس میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے الیکٹرک، حیسکو، سیپکو کا عوام سے وصول الیکٹرکسٹی ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب 80 کروڑ روہے سندھ حکومت کو ادا کرنے اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا بلوں کی مد میں کے الیکٹرک کو واجبات کی ادائیگی کا تنازعہ حل نہیں ہوسکا۔ اجلاس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کیجانب سے چیف آپریٹنگ افسر اسداللہ خان نے 2016ع سے ہر ماہ بجلی کے بلوں کی مد میں ڈیڑھ ارب روہے کے الیکٹرک کو ادائیگیاں کرنے کی دعوی کرتے ہوئے پی اے سی کو بتایا کے 2016ع سے واٹر بورڈ کے بلوں کی مد میں ہر ماہ سندھ حکومت کے الیکٹرک کو ڈیڑھ ارب روہے ادا کر رہی ہے۔ اسدللہ خان نے پی اے سی کو بتایا کے 2005ع میں حکومت پاکستان اور اس وقت کی کے ای ایس سی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کے واٹر بورڈ ، جیلز، ہسپتالوں اور ملکی اداروں کی انسٹالیشن کیطرف اگر بجلی کے بلوں کی مد میں واجبات ہونگے تو وہ وفاقی حکومت ادا کرے گی اور 2005ع میں سندھ حکومت اس معاہدے میں پارٹی نہیں تھی۔ جبکے 2016ع کو جنوری میں سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کے واٹر بورڈ کے بلوں کی مد میں واجبات کی رقوم کے الیکٹرک کو سندھ حکومت ادا کرے گی اور 2016ع کے
جنوری ماہ کا پہلا 50 لاکھ روپے کا بل بھی سندھ حکومت نے کے الیکٹرک کو ادا کیا۔ اور اب ہر ماہ سندھ حکومت واٹر بورڈ کے بلوں کی مد میں ڈیڑھ ارب روہے ماہانہ کے الیکٹرک کو ادا کر ہی ہے جس پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے کے الیکٹرک کو جب واٹر بورڈ کیطرف سے بلوں کی مد میں واجبات ادا ہورہے ہیں تو پہر کے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں عوام سے وصول 32 ارب روہے سندھ حکومت کو ادا کرنے پڑینگے۔پی اے سی نے واٹر بورڈ سے کے الیکٹرک کو ہر ماہ واجبات کی ادائیگیاں ہونے کے باوجود کے الیکٹرک سے سندھ حکومت کو ڈیوٹی کی مد میں 32 ارب سے زائد کے واجبات ادا نہ ہونے پر معاملے کے حل کے لئے آئندہ اجلاس میں کے الیکٹرک، حیسکو، سیپکو، واٹر بورڈ حکام اور محکمہ انرجی سمیت محکمہ لوکل گورنمنٹ کو طلب کرلیا ہے۔