21 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی بار پی آئی اے منافع میں

 اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان کی قومی ایر لائن  پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے اب منافع بخش ادارہ بن گیا ہے ۔ بی بی سی کے ریاض سہیل اور تنویر ملک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کے مالی حالات سے متعلق جب بھی کوئی خبر آئی تو اس میں ہر سال اس کے بڑھتے مالی خسارے کا ذکر ملتا تاہم گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا کہ پی آئی اے نے 21 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی بار منافع کمایا۔پی آئی اے کے منافع بخش ہونے کی خبر سب سے پہلے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کی تو اس کے بعد پی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ 21 سال کے بعد ائیر لائنز نے منافع کمایا۔

وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے بھی پی آئی اے کے منافع بخش ہونے پر کہا گیا کہ عشروں بعد یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔حکومت اور پی آئی اے کی جانب سے ائیر لائنز کے منافع بخش ہونے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب اس کی نجکاری کے لیے حکومت پھر سے کوشش کر رہی ہے۔واضح رہے گزشتہ سال حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔پی آئی اے کے اچانک سے منافع بخش ہونے کا حکومتی اعلان اس لیے بھی حیران کن ہے کہ صرف ایک سال قبل یعنی 2023 کے جاری کردہ مالیاتی نتائج، جو جنوری سے ستمبر 2023 کے مہینوں پر مشتمل تھے، کے مطابق اس کا خسارہ 75 ارب روپے تھا جبکہ سال 2022 میں قومی ائیر لائنز کا خسارہ 88 ارب روپے تھا۔
پی آئی اے کے اعلامیے کے مطابق 2024 میں ائیر لائن نے 2.26 ارب روپے کا منافع کمایا تاہم اس منافع کے پس پردہ حکومت کا وہ اقدام ہے جس کے تحت ائیر لائنز کے ذمے کئی سو ارب روپے کے قرض کو ختم کر کے اس کا ذمہ حکومت نے خود اٹھا لیا ہے۔پی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ائیر لائنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پی آئی اے کے سال 2024 کے سالانہ نتائج کی منظوری دی جس میں پی آئی اے نے 21 سال کی طویل مدت کے بعد منافع حاصل کیا۔سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے 9.3 ارب روپے آپریشنل منافع جبکہ 2.26 ارب روپے خالص یا نیٹ منافع کمایا۔پی آئی اے کا آپریٹنگ مارجن 12 فیصد سے زیادہ رہا جو دنیا کی کسی بھی بہترین ائیرلائنز کی پرفارمنس کے ہم پلہ ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل کاسٹ میں جہاز کا ایندھن، انتظامی اخراجات، تقسیم کاری کے اخراجات وغیرہ شامل ہیں۔پی آئی اے نے آخری منافع سال 2003 میں حاصل کیا تھا جس کے بعد دو دہائیوں تک پی آئی اے خسارے سے دوچار رہی۔قومی ایئر لائنز کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومت پاکستان کی سرپرستی سے پی آئی اے میں جامع اصلاحات کی گئیں جن میں پی آئی اے کی افرادی قوت اور اخراجات میں واضح کمی، منافع بخش روٹس میں استحکام، نقصان دہ روٹس کا خاتمہ اور بیلنس شیٹ ریسٹرکچرنگ شامل ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ پی آئی اے کے واپس منافع بخش ادارہ بننے سے نا صرف اس کی ساکھ میں اضافہ ہو گا بلکہ یہ ملکی معیشت کے لیے بھی مفید ثابت ہو گا۔پی آئی اے نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے اس امر کا باضابطہ اعلان کیا گیا اور اس اعلی مالیاتی کارکردگی کو نجکاری کے لیے بہت اہم قرار دیا گیا۔پی آئی اے کا سال 2023 میں خالص خسارہ 75 ارب روپے تھا تاہم پی آئی اے کے مطابق سال 2024 میں ائیر لائنز نے 26 ارب روپے کا خالص منافع کمایا۔نشریاتی ادارے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے تحت قومی ایئر لائنز کی فروخت سے قبل اس کا سالانہ منافع ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے اور ادارے کے ذمے قرضوں کی بڑی مقدار کو سرکاری کھاتوں میں منتقل کیے جانے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا۔بلومبرگ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آڈٹ شدہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق پی آئی اے نے دسمبر 2024 میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران فی شیئر 5.01 روپے آمدن حاصل کی۔نومبر 2024 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو سیکرٹری نجکاری عثمان باجوہ نے بتایا تھا کہ پی آئی کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے بولی دہندگان چاہتے تھے کہ حکومت 26 ارب روپے مالیت کے ٹیکس واجبات، سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے پی آئی اے کو 10 ارب روپے مالیت کی عبوری مالی معاونت اور نو ارب روپے کے دیگر واجبات کو ختم کر دے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان کا کہنا تھا کہ جب تک پی آئی اے کی بیلنس شیٹ مکمل طور پر صاف نہیں کی جاتی، کوئی سنجیدہ سرمایہ کار آگے نہیں آئے گا۔پی آئی اے نجکاری اور اس کے مالیاتی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق پی آئی اے کی جانب سے اربوں روپے خالص منافع کمانا اس لیے مشکل نہیں رہا کہ حکومت نے اس کے ذمے کئی سو ارب روپے کے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی اپنے ذمے لے لی، جس کے بعد اس کی بیلنس شیٹ بالکل کلین ہو گئی کہ جس نے ائیر لائنز کو منافع بخش بنا دیا۔ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کئی سو ارب روپے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی کو اپنے کھاتے میں لے لی گی تو اس کے بعد ائیر لائنز کا منافع بخش ہونا حیران کن نہیں رہ جاتا۔پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے کے ذمے 850 ارب روپے کا قرض ہے جس کا بڑا حصہ حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا اور اس کے بعد اس پر سود کی ادائیگی بھی حکومت کے کھاتے میں چلی گئی تو اس کے بعد اس کے آپریشنل منافع بخش بننے میں کوئی مشکل نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت نے پی آئی اے کے اثاثے بھی اپنے ذمے لیے ہیں اور اس پر قرض بھی، تو اس کے بعد اس کا منافع بخش ہونا بنتا ہے۔اسلام آباد میں مقیم سینیئر معاشی صحافی شہباز رانا نے بھی اس بات کی تصدیقی کی ائیر لائنز کی بیلنس شیٹ سے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی حکومت کے ذمے ہے ورنہ جہاں تک اصلاحات کی بات ہے تو کوئی ایسی اصلاحات نہیں ہوئیں کہ جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ ائیر لائن کی پرفارمنس بہتر ہوئی۔سال 2023 کے پہلے نو ماہ کے پی آئی اے کے مالی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے 58 ارب روپے سود کی ادائیگی پر خرچ کیے تھے۔ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد معراج کہتے ہیں کہ پی آئی کی اپنی رپورٹس میں ہی ابہام رہا ہے۔مثلا پی آئی اے کی ویب سائٹ پر موجود 2023 کی تیسری سہ ماہی کی رپورٹ میں ٹیکس کی کٹوتی کے بعد 77.52 ارب روپے کا خسارہ دکھایا گیا تھا جو 20.87 ارب کی آمدن کو ظاہر کرتا ہے جو خسارے کا تقریبا 38 فیصد بنتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال سے یہ لگتا ہے کہ پی آئی اے کے ریونیو میں بہتری آئی لیکن خسارے میں کمی نہیں ہوئی۔ حالیہ رپورٹ میں جو خاص تبدیلی نظر آرہی ہے وہ اضافی سامان کی مد میں ایک ارب روپے کی آمدن ہے جبکہ اسی دورانیے میں 2022 میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اسی طرح انجنیئرنگ خدمات میں بھی ایک ارب سے زائد آمدن بتائی گئی جو 2022 کے اسی دورانیے میں موجود نہیں تھی اس کے علاوہ منسوخی چارجز میں 2.954 ارب روپے آمدن ظاہر کی گئی جبکہ 2022 کی رپورٹ میں یہ موجود نہیں۔ڈاکٹر محمد معراج کہتے ہیں کہ حقیقی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ واقعی پی آئی اے منافع بخش کمپنی بن گئی یا نجکاری کے لیے کمپنی کی مالیاتی رپورٹس کو قلیل مدتی میں زیادہ پرکشش دکھایا جا رہا ہے۔ماہر ایوی ایشن افسر ملک بھی ڈاکٹر معراج کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک رپورٹ پبلک نہیں ہوتی اس وقت تک حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کمپنی منافع میں ہے۔تاہم ان کا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ کچھ بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ انڈسٹری کے حالت پہلے سے بھی خراب ہیں، اس میں بہتری نہیں آئی اور ایسے میں منافع ممکن نہیں۔،تصویر کا کیپشنگزشتہ سال کے شروع میں حکومت نے ایک الگ کمپنی پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی بنا کر پی آئی اے کے ذمے 623 ارب روپے کے قرضے اس کے حوالے کر دیے تھے۔پی آئی اے نجکاری کے لیے کوششیں گزشتہ کئی برس سے جاری ہیں تاہم ائیر لائنز پر قرضوں اور اس پر سود کی ادائیگی کے بوجھ کی وجہ سے اس کی نجکاری ممکن نہیں ہو سکی۔

یاد رہے کہ جولائی 2023 میں، پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ایئر لائنز کی تنظیم نو کے ایک منصوبے کی منظوری دی جس کے تحت ایک نئی ہولڈنگ کمپنی قائم کی جائے گی تاکہ پرانے قرضے، غیر ہوابازی اثاثے اور موجودہ پی آئی اے سی ایل کے ذیلی ادارے (پی آئی اے-آئی ایل، سکائی رومز لمیٹڈ، اور سیبر ٹریول نیٹ ورک) برقرار رکھے جائیں جبکہ خود ایئر لائنز اس کی مکمل ملکیتی ذیلی ادارہ ہو گی جو ہوابازی کے اثاثے اور متعلقہ واجبات اپنے پاس رکھے گی۔پی آئی اے کی 2023 کی تیسری سہ ماہی رپورٹ میں نجکاری کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کی تصدیق ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 اپریل 2024 سے ایئر لائنز صرف ہوا بازی کے کاروبار سے متعلق اثاثے اور ذمہ داریاں رکھے گی، جن میں ہوائی جہاز کی مرمت، سامان کی دیکھ بھال، مال برداری، کھانے کا انتظام اور تربیت جیسے امور شامل ہیں۔گزشتہ سال کے شروع میں حکومت نے ایک الگ کمپنی پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی بنا کر پی آئی اے کے ذمے 623 ارب روپے کے قرضے اس کے حوالے کر دیے تھے۔حکومت کی جانب سے بنائی گئی اس کمپنی نے قرض پر سود کی ادائیگی بھی دینی ہے۔ پی آئی اے کی بیلنس شیٹ میں ان قرضوں اور سود کی ادائیگی کے ختم ہونے سے 2024 میں اسے منافع حاصل ہوا۔پی آئی اے کے ترجمان نے بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ائیر لائنز کے ذمے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی اب حکومت کی ہولڈنگ کمپنی کے حوالے ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ائیر لائنز پر سے بہت بڑا مالی بوجھ ہٹ گیا اور پی آئی اے منافع بخش بنی۔انھوں نے بتایا کہ سالانہ پی آئی اے سود کی مدد میں 80 ارب روپے کے لگ بھگ ادا کر رہی تھی تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اگر اس ہولڈنگ کمپنی کے ذمے پی آئی اے کے قرض اور اس پر سود کی ادائیگی ہوئی تو اس کے ساتھ پی آئی اے کے اثاثے بھی اس کے حوالے کیے گئے جس میں پی آئی اے کے زیر ملکیت عمارتیں اور دوسرے اثاثے شامل ہیں۔

جب پی آئی اے میں اصلاحات اور اس کی سروس میں بہتری کے نہ ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو قومی ایئرلائنز کے ترجمان نے بتایا کہ اگر ائیر لائنز پر مسافر سفر کر رہے ہیں اور یہ آپریشنل منافع کما رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مسافر اس پر اعتماد کر رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کو ڈائریکٹ فلائٹس میں دوسری ائیر لائنز پر برتری حاصل ہے اس لیے کمپنی بہتر پرفارم کرتی ہے۔ایوی ایشن شعبے کے ماہر افسر ملک نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی بھی پی آئی اے کے ذمے کافی قرضے ہیں جن میں سول ایوی ایشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ادائیگیاں ہیں جو پی آئی اے چاہتی ہے کہ حکومت اپنے ذمے لے۔انھوں نے کہا کہ 2024 میں جس طرح خالص منافع دیکھا گیا، وہ نمبرز کی حد تو ٹھیک ہے لیکن سرمایہ کار اور اس کے پروفیشنل ایڈوائزر اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ یہ منافع کیسے حاصل کیا گیا۔

اس کے ساتھ ائیر لائنز میں کوئی ایسی اصلاحات تو ہوئی نہیں کہ جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اس کی سروس بہتر ہو چکی۔افسر ملک نے بتایا کہ ایوی ایشن مارکیٹ سکڑ رہی ہے اور اس لیے یہ سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے ٹریول بزنس بہت نیچے چلا گیا ہے کہ اب صرف امیر آدمی ہی سفر کرتا ہے۔ان کے مطابق ٹریول بزنس میں سیاحت مجموعی بزنس کا ایک تہائی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے کسی سرمایہ کار کے لیے پاکستان کی ایوی ایشن مارکیٹ پرکشش نہیں۔افسر ملک نے کہا کہ پی آئی اے کے اندر سے بھی یہ کوشش جاری ہے کہ نجکاری نہ ہو تاکہ معاملات یونہی چلتے رہیں کیونکہ حکومت خسارہ پورا کر کے ائیر لائنز چلاتی رہی ہے۔