بحران کی پانچ خار دار شاخیں : تحریر وجاہت مسعود


روزمرہ زندگی میں پانی، ہوا اور آگ ہماری ضرورت اور خواہش کے تابع ہوتے ہیں۔ پیاس لگی تو حافظ شیراز کے لفظوں میں ’ما در پیالہ عکس رخ یار دیدہ ایم‘۔ سرما کی راتوں میں چند لکڑیاں روشن کر لیں اور الاؤ کے گرد کہانیاں کہتے کاٹ دار ہوا کو گزرے وقتوں کی یاد سے مات دے لی۔ اسی نسیم صبح کا قہر آلود روپ کھلے میدان میں گردباد کی آفت میں بدلتے دیکھئے۔ صراحی میں رکھے فرحت بخش آب سرد کو سیلابی ریلے کی تباہ کن ہیبت میں مشاہدہ کریں۔ جاڑے میں انگاروں کی زندگی بخش حرارت کا جنگل کی منہ زور آگ سے موازنہ کیجئے۔ فلک بوس چوٹیوں کی خاموشی کو خوفناک گڑگڑاہٹ سے بستیوں پر پہاڑی تودوں کی صورت برستے دیکھئے۔ ’سائیں رات کی رات یہ بستی مقتل کیوں بن جاتی ہے‘؟

ان دنوں ہم تغیر اور تقلیب کے ایسے ہی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ دنیا ایک بڑے معاشی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ٹھیک ایک صدی قبل امریکی معیشت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ بینک آسان شرائط پر قرضے دے رہے تھے۔ کاروباری سرگرمیوں کا منافع اسٹاک ایکسچینج میں لگایا جا رہا تھا اور پھر 1928 کا اکتوبر آن پہنچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسٹاک مارکیٹ منہدم ہو گئی۔ امریکا میں بیروزگاری 25 فیصد کو پہنچ گئی۔ ایک تہائی کسان اپنی زمین سے محروم ہو گئے۔ 25 ہزار میں سے 9 ہزار بینک بند ہو گئے۔ امریکی معیشت کا حجم 30 فیصد کم ہو گیا۔ اس کا ناگزیر اثر یورپ اور جاپان پر بھی پڑا۔ عالمی معیشت میں 15 فیصد کمی آ گئی۔ معاشی بحران سے سیاسی انتہا پسندی نے جنم لیا۔ 1929 کی کساد بازاری بالآخر دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئی۔ 1933 کے امریکی انتخابات میں روزویلٹ نے کامیابی حاصل کر کے نیو ڈیل کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی نکتہ شہری بہبود پر اخراجات تھا۔ تاہم دنیا بھر میں معاشی بحران سیاسی افراتفری کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ فسطائیت عوام میں اپنے خواب بیچ چکی تھی۔اسپین میں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ جاپان جنگجوئی کے راستے پر چل نکلا تھا۔ روس میں اسٹالن نے دہشت پھیلا رکھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ عالمی جنگ نے آٹھ کروڑ جانوں کا تاوان لیا۔ اس جنگ سے ایک طرف اقوام متحدہ نے جنم لیا تو دوسری طرف ایٹمی اسلحے اور سرد جنگ نے نئی دنیا تشکیل دی۔ سرد جنگ نے عالمی جنگ کے امکانات معدوم کر دیے لیکن کوریا، ویت نام، لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں درجنوں بے چہرہ جنگیں چھیڑ دیں۔ نوے کی دہائی کی ابتدا میں سرد جنگ ختم ہوئی تو کمیونسٹ بلاک بکھر چکا تھا۔ یورپین یونین تشکیل پا چکی تھی۔ تاہم جمہوری خواب اور انسانی حقوق کے امکانات کو نئی دنیا میں بڑے سرمایہ دار نے اغوا کر لیا۔ نفرت، دہشت گردی اور مقبولیت پسندی کی تکون نے 21 ویں صدی کو ٹھیک ایک صدی پیچھے لے جا کھڑا کیا ہے۔ امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی نے صرف امریکی معیشت کو بے یقینی سے دوچار نہیں کیا، پون صدی سے قائم نیٹو کے بنیادی اصول بھی دھواں بن کر اڑ گئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ، یوکرین، تائیوان اور گرین لینڈ جنگ کے دہانے پر ہیں۔ ایرانی سرحد سے چار ہزار کلومیٹر دور ڈیگوگارشیا میں امریکی فضائیہ پہنچ چکی ہے۔ ٹرمپ نے درآمدات کی شرح میں غیر معمولی اضافے سے عالمی معیشت کو بے یقینی کے پانیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اس میں پاکستان جیسے غریب ملک کا آٹا زیادہ گیلا ہو گا۔ امریکا واحد ملک تھا جس سے تجارت میں پاکستان منافع میں تھا لیکن جہاں باقی دنیا کو رعایت نہیں مل سکی وہاں پاکستان کیا بیچتا ہے۔ اس عالمی بحران کے خد و خال ابھی کھل رہے ہیں اور اسی سے 21 ویں صدی کا عالمی نقشہ مرتب ہو گا۔

پاکستان اس عالمی بحران میں حاشیے پر ہے لیکن خود چار بڑے داخلی بحرانوں سے دوچار ہے۔ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کے باوجود جمہوری نظام تنکوں پر کھڑا ہے۔ معیشت کے نصابی اشاریوں سے قطع نظر معاشی بحالی، بیرونی سرمایہ کاری، تجارت اور صنعتی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کبھی ایسے بے رنگ اور غیر یقینی سیاسی موسم سے نہیں گزرا۔ مشرقی پاکستان کے بحران میں بھی کم از کم یہ واضح تھا کہ متحارب گروہوں میں بنیادی تضاد کیا ہے۔ آج یہ بتانا مشکل ہے کہ سال رواں کے آخر تک سیاسی صورت حال کیا ہو گی۔ دوسرا بحران وفاقی اکائیوں میں اعتماد کا بحران ہے۔ سندھ میں نئی نہروں کی تعمیر پر پائی جانے والی بے چینی اور حساسیت سے پنجاب اور دوسرے صوبے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ یہ سمجھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ سندھ حالیہ برسوں میں اطمینان بخش سطح پر پرامن رہا ہے۔ وفاق کی اس اکائی کو کشمکش سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ دہشت گردی کا سوال اب تین ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں ہیں تو کیا قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے صرف بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی کا ایک حصہ مسلح مزاحمت ہے اور دوسرا حصہ سیاسی حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ ربع صدی سے بلوچستان کی سیاست نادیدہ اشاروں پر چلائی جا رہی ہے۔ ایسی حکومت بلوچ عوام کو مطمئن کر سکتی ہے اور نہ وفاق کے ساتھ اعتماد کا تعلق پیدا کر سکتی ہے۔ بلوچ بحران مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی اور سیاسی قوتوں سے گفت و شنید کا تقاضا کرتا ہے۔ ابھی اس تدبر کے آثار نظر نہیں آئے۔ افغانستان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کی خبریں موجود ہیں لیکن یہ سمجھنا خوش فہمی ہو گی کہ افغانستان کی قابض حکومت ٹی ٹی پی سے تعاون ختم کرنے پر آمادہ ہو سکے گی۔ پاکستان کا چوتھا بحران معاشی ہے اور زمینی سطح پر معاشی اشاریے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں غیر معمولی سرگرمی پر خوش ہونے کی بجائے اس کے ممکنہ محرکات پر غور کی ضرورت ہے۔ انتظامی سطح پر ریاستی عملداری اطمینان بخش نہیں۔ پاکستان پیوستہ معاشی مفادات کے پنجے میں گرفتار ہے۔ ملک میں سیاسی فیصلہ سازی پر غیر سیاسی بالادستی نے معاشی امکانات کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اہم سیاسی قوتیں اس انتظار میں ہیں کہ تحریک انصاف اور مقتدرہ کے معاملات کیا نہج اختیار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا معمول کے دستوری سیاسی عمل کی طرف لوٹے بغیر یہ پیچیدہ سیاسی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ جنگ