ہمارا مارکس تو گیا!!! : تحریر سہیل وڑائچ


مذہبی پس منظر اور دائیں بازو کے ماحول میں تربیت پانے کے بعد پہلے سوشلسٹ شیخ محمد رشید سے ملاقات ہوئی اور پھر مارکسسٹ ڈاکٹر منظور اعجاز سے تعلق بنا تو بائیں بازو کے بارے میں اپنے نظریات پر نظرثانی کرناپڑی۔ پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شیخ محمد رشید دو کمروں کے گھر میں شادمان میں رہائش پذیر تھیاپنے دوست طاہر چودھری کے ہمراہ شیخ رشید اور انکی بیگم شکیلہ رشید کے ہاں جانا شروع کیا تو انکی ایمانداری، خلوص اور کمٹمنٹ نے بہت زیادہ متاثر کیا۔جنرل ضیا الحق کے عہد کا آخری دور اور نئی جمہوریت کے ابتدائی دنوں میں ان کا انداز و اطوار دیکھ کر رشک پیدا ہونے لگا۔ امریکی سفیر گھر میں آکر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اپنے نظریے کی نسبت اور امریکہ مخالف پالیسیوں کی وجہ سے ملاقات سے انکار کر دیتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو انکی اہلیہ کو سفیر مقرر کرتی ہیں تو وہ کئی دن تک گھر میں لڑائی جاری رکھتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی رشوت ہے ۔ آنٹی کہا کرتیں میں نے شیخ رشید سے بطورشخص شادی نہیں کی بلکہ میں نے سوشلزم کے آئیڈیا سے شادی کی ہے جو شیخ رشید کی شکل میں مجسم ہے ۔

امریکہ کے سفر شروع ہوئے تو 90 کی دہائی ہی میں ڈاکٹر منظور اعجاز سے ملاقات ہوئی جو فیملی فرینڈشپ میں بدل گئی ان کی سرپرستی اور شفقت ہمیشہ میسر رہی ۔ابھی دو ماہ پہلے میرا بیٹا انہیں سلام کرنے اور دعائیں لینے امریکہ میں ان کے گھر گیا تو اس کیلئے نیک خواہشات کے اظہار کے طورپر طویل گفتگو ہوئی ۔ڈاکٹر منظور اعجاز بھی مارکسسٹ کی ایک عملی اور انسانی شکل تھے۔ چک 60برج والا ضلع ساہیوال کا پینڈوپن، معاشیات میں امریکی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی بھی ختم نہ کرسکی ۔وہ اپنے گاؤں کے پنجابی لہجے میں گفتگو کرکے خوشی اور راحت محسوس کرتے۔ڈاکٹر منظور اعجاز بچپن میں ہی پولیو کی وجہ سے معذور ہو گئے لیکن اپنے بڑھاپے تک پہنچنے کے باوجود نہ انہوں نے کسی کا سہارا لیا نہ کبھی ایک دن بھی بغیر لکھے پڑھے گزارا۔وہ کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف رہتے ورجینیا میں ان کے گھر اور سٹڈی کے درمیان سیڑھیاں تھیں اپنی معذوری کے باوجود وہ دن میں دو تین بار سیڑھیاں چڑھتے تاکہ کہیں انکی آرام طلبی انہیں اپنے تعلیمی اور تدریسی مشاغل سے غافل نہ کر دے ۔

ڈاکٹر صاحب پنجابی اور بالخصوص وارث شاہ کے کلام کے عاشق صادق تھے انکی اس محبت کا عملی اظہار یہ تھا کہ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام وارث رکھا ، گھر میں وہ اپنے بیٹے وارث کو دھیدو کے پیارے لقب سے پکارتے تھے، جو دراصل وارث شاہ کے ہیرورانجھیکا پیار کا نام تھا ۔مقیم امریکہ میں تھے مگر دل پنجاب اور پنجابی کے ساتھ دھڑکتا تھا انکی زندگی کا آخری خواب پاکستان اور پنجاب کے قدیم ترین نام ملوحہ کے نام پر ملوحہ آن لائن یونیورسٹی کا قیام تھا مجھے بھی وہ اس یونیورسٹی میں لیکچر دینے پر رضامند کر چکے تھے۔

ڈاکٹر منظور اعجاز ٹھیٹھ پنجابی اور انکی اہلیہ یو پی کی اہل ِزبان تھیں۔ڈاکٹر صاحب پنجابی بولتے اور وہ اردو ،یوں ہی انکی عمر رواں بیت گئی ۔زبانوں اور رسم ورواج کے فرق کے باوجود انہوں نے زندگی کو اچھی طرح بسر کیا ۔ڈاکٹر صاحب بچپن میں ہی مارکسسٹ ہو گئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھا بھی اور پڑھایا بھی، اسلامی جمعیت طلبا کے جبر کا شکار ہو کر یونیورسٹی اور بالآخر ملک سے ہی بے دخل ہوگئے۔ امریکہ میں جا بسے مگر وہاں انہوں نے اپنا پاکستان اور اپنا پنجاب بسا لیا ان کا مہمان خانہ ہم جیسوں کیلئے جائے پناہ ہوتا تھا انکے ہاں قیام ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کے تاریخ فلسفے اور زبان کے علم سے فیض یاب ہوتے انکی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے گپ شپ، کھانا پینا اور سونا سب کچھ وہاں میسر تھا۔

ڈاکٹر منظور اعجاز وادی سندھ اور سندھو سپت ہونے پر فخر کیا کرتے تھے وہ ہڑپہ اور موہنجودڑو کی قدیم تہذیب پر قائم ریاست ملوحہ کو اپنی تاریخ کا اہم ترین حصہ سمجھتے تھے وہ پروہت بادشاہ، رقاصہ سمباراجان اور ہڑپہ کی نیل پری اورتین پتی ڈھاک بوٹی کو اپنی تہذیب و ثقافت کی علامت سمجھتے تھے ۔ڈاکٹر منظور اعجاز پنجابی شاعری کو گھول کر پی چکے تھے اسی لئے وہ کبھی بھی اپنے آپ کو پنجابی قوم پرست نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود کو انٹر نیشنلسٹ پنجابی سمجھتے تھے جب تک ان کی صحت ٹھیک رہی وہ ہر سال پاکستان آتے اپنے گاوں جاتے سندھ کا دورہ کرتے اور پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کا خود اپنی آنکھوں سے جائزہ لیتے۔میرے دوست منیر احمد خان سے ان کا ساہیوال کنکشن تھا کیونکہ دونوں ساہیوال کالج کے پڑھے ہوئے تھے دونوں میں نوک جھونک سننے والی ہوتی پرویز رشید اور جاوید ہاشمی بیٹھتے تو ان سے 60کی دہائی کی نظریاتی لڑائیوں کے قصے چھڑجاتے مجیب شامی صاحب بھی ساہیوال کے پڑھے ہیں ان سے بھی خاصی گپ شپ ہوتی ۔ڈاکٹر منظور اعجاز پاکستان آتے تو جہاں نجم حسین سید کی محفل میں رونق آ جاتی وہاں پنجابی کتابوں کی دکانوں پر ان کے دورے ہوتے شاعروں،ادیبوں، سیاست دانوں سے ان کے مکالمے ہوتے نوجوانوں کے خیالات سنتے اور پھر جاتے ہوئے وہ پاکستان کے ہر سال بدلنے والے حالات پر ایک مبسوط تبصرہ کرتے ۔پنجابی کے سوجھوان زبیر احمد نے ڈاکٹر منظور اعجاز کے دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دی تو ان کی یادوں کا دریچہ کھل گیا میری زندگی کا مارکس چلا گیا اب کون وارث شاہ اور بھگت کبیر کو واشنگٹن میں بیٹھ کر یاد کرے گا؟کون ہے جو ملوحہ کی کہانیوں سے بابا بلھے شاہ کی سماجی بغاوت کی تاریخ سنائے گا ؟کون ہے جو کچلے ہوئے نچلے طبقے سے ہمدردی کا راگ الاپے گا کون ہے جس کے حرف مہربانی سے دل کو تسکین ملے گی؟کہاں مرد قلندر کا ایک جملہ اور کہاں سینکڑوں خوشامدی اورطنزیہ تبصرے، ڈاکٹر منظور اعجاز جیسااب کہاں سے لائیں گے؟

مجھے جب کبھی واشنگٹن جانے کا اتفاق ہوا ڈاکٹر منظور اعجاز نے مجھے امریکی تھنک ٹینکس اور ہر اس شخص سے ملوایا جس سے پاکستان کی تاریخ و سیاست کے حوالے سے میں ملنے کا متمنی تھا، پاکستان کے وائسرائے رابرٹ اوکلے ہوں یا بھٹو کی رخصتی پر یہ تبصرہ کرنے والا پارٹی ازاوور ۔ڈاکٹر منظور اعجاز کی امریکہ میں موجودگی پاکستانی دانش کے ایک ستون کی سی تھی جو تاریخ، ادب اور سیاست کا مرقع تھا وہ مرحوم خالد احمد، اکمل علیمی، شاہین صہبائی اور دوسرے پاکستانیوںکے ساتھ ایک ماہانہ نشست بھی سجاتے تھے جس میں پاکستان سے آنے والے مہمانوں کو سنتے اور سناتے تھے۔ڈاکٹر منظور اعجاز کی رخصتی ایک عالِم کی عالم سے رخصتی ہے۔ خدا کرے کہ ان کی پھیلائی ہوئی علم کی روشنی کبھی ماند نہ ہو اور انکی فقیری سے نہ صرف انکی قبر روشن ہو بلکہ انکے علم سے آنے والے زمانے بھی جلا پائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ