کنن پوشپورہ کی داستان استقامت و مزاحمت : تحریر سردار عبدالخالق وصی


ھمدم دیرینہ بشیر سدوزئی نے رمضان کریم کی آمد سے قبل اپنی تصنیف لطیف از راہ محبت برائے مطالعہ و تبصرہ ارسال کی لیکن رمضان کریم میں عبادات و استغفار، ترتیل قران و تزکیہ نفس کی فکر اور غلبہ استراحت غالب رھتا ھے سو یہ کتاب طاق نسیاں ھی رھی دیکھ ھی نہیں پایا آج جو عید شیریں کو گزرے دو تین ایام ھوئے تو جستہ جستہ کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو نگاہ اول انتساب پر پڑی۔
“مقبوضہ جموں وکشمیر کی 24 ھزار بیواؤں،13 ھزار زبردستی اجتماعی زیادتیوں،6 ھزار آدھی بیواؤں ،ایک لاکھ 24 ھزار یتیم بچوں اور جیل میں قید آسیہ اندرابی اور انکی 33 ساتھیوں کے نام جو جموں وکشمیر کی تحریک آزادی میں ہمت ،استقامت اور مزاحمت کا استعارہ ہیں” کے نام سے منسوب یہ کشمیری زن و مردوں کی داستان زیست دنیا بھر میں قائم عالمی ادارہ ھا حقوق انسانی کے منہ پر ایک نشان ھزیمت کا درجہ رکھتی ھے کہ بھارت ایک نام نہاد سیکولر جمہوریت کے نام پر قائم ملک نے کشمیریوں کا جینا گزشتہ پون صدی سے اجیرن کر رکھا ہے مجال ھے کسی کے کان پر جوں بھی رینگتی ھو ماسوائے چند اداروں و شخصیات کے جو گاھے گاھے اس پر خامہ فرسائی کرتے ھیں ان میں ایک معتبر و مؤقر نام بشیر سدوزئی کا بھی ھے جو طویل عرصہ سے اس فیلڈ میں جتے ھوئے ھیں۔
بشیر سدوزئی نے اس سے قبل قومی و مقامی اخبارات،جرائد ورسائل میں سینکڑوں مضامین و موضوعات پر مشتمل کتب تصنیف کی ھیں جو سب پڑھنے لائق ھیں جن میں کوہ قاف کی چوٹیاں سفرنامہ آذربائجان,بلدیہ کراچی سال بہ سال 1844 تا 1979,برھان وانی شہید،زلزلے سے پہلے اور بعد،پونچھ جہاں سروں کی فصل کٹی،کشمیر کے مجاہد اور تقدیر کشمیر کے نام سے شائع ھوئی ھیں قابل ذکر ھیں۔
“کنن پوشپورہ” ایک دستاویزی نوعیت کی تصنیف ہے جو 1991 میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والے اجتماعی زیادتی کے دلخراش واقعے کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب کشمیر کی تاریخ کے ایک المناک باب کو کھولتی ہے اور اس واقعے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے، جن میں متاثرہ خواتین کے بیانات، عدالتی کارروائیاں، اور انصاف کے حصول میں درپیش مشکلات شامل ہیں۔
یہ کتاب نہ صرف کنن پوشپورہ کے واقعے کو بیان کرتی ہے بلکہ اس کے پس منظر میں کشمیر میں جاری سیاسی اور عسکری حالات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مصنف نے متاثرہ خواتین کے انٹرویوز، عدالتی ریکارڈز، اور صحافتی رپورٹس کی بنیاد پر یہ تصنیف تدوین کی ہے کہ کس طرح اس واقعے کو بھارتی حکومت نے دبانے اور مسترد کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
بشیر سدوزئی کی یہ تحریر جہاں انکے جذباتی احساسات کی مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی اور معلوماتی بھی ہے۔ انہوں نے عالمی ثبوتوں اور عینی شاہدین کے بیانات کو بڑی عرق ریزی سے جمع کر کے یہ واقعات قارئین و انسانی حقوق پر کام کرنے والے اداروں کی نظر کئے ہیں۔
کنن پوشپورہ کا واقعہ نہ صرف ایک فوجی اور ریاستی ظلم و دھشت گردی تھا بلکہ ایک منظم طریقے سے کشمیری عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی تھی۔
مصنف نے بھارتی سرکاری بیانیے اور متاثرین کی گواہیوں کے درمیان واضح فرق کو اجاگر کیا ہے۔
عدالتی ناانصافیوں کی ایک طویل فہرست ھے غیر آئینی و غیر قانونی مقدمات کو بار بار دبانے اور فوج کو خصوصی اختیارات کے باعث کسی کو سزا نہ ملنے پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
ھندوستانی و مقامی میڈیا کی اس پر خاموشی بین الاقوامی میڈیا کی محدود توجہ اور بھارتی میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو نظر انداز کرنے پر بھی کتاب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ کتاب ایک اہم تاریخی دستاویز ہے جو ایک ایسے موضوع پر روشنی ڈالتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرین کی شہادتوں کی بنیاد پر یہ کتاب ایک مؤثر تحقیقی دستاویزی ثبوت کا درجہ رکھتی ھے۔
“کنن پوشپورہ” ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف ایک المناک سانحے کو اجاگر کرتی ہے بلکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ اس جیسی کتب کی تصنیف و ابلاغ بشیر سدوزئی جیسے متوسط و کم مایہ فرد واحد کی ذمہ داری نہیں ھے بلکہ ضرورت اس امر کی ھے کہ کشمیر پر کام کرنے والے اور کشمیر کے نام پر قائم ھمارے قومی و سرکاری اداروں کو ایسی کتب و شخصیات کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے تاکہ بھارت کے اصل چہرے کو اقوام عالم تک بے نقاب کیا جا سکے۔
بشیر سدوزئی نے اس کتاب کی تدوین و تصنیف میں جن شخصیات، کتب و اداروں سے استفادہ کیا ھے بڑی فراخدلی سے انکا تذکرہ بھی کیا ھے اور اظہار تشکر بھی بجا لایا ھے۔
23-24 فروری 1991 کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو گاؤں، کنن اور پوشپورہ، میں بھارتی فوج نے ایک خوفناک جرم کا ارتکاب کیا۔ بھارتی فوج نے ان گاؤں میں “کورڈن اینڈ سرچ آپریشن” کے نام پر گھروں میں گھس کر مردوں کو باہر نکالا اور خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ متاثرہ خواتین کی عمریں 13 سال سے لے کر 80 سال تک تھیں۔
یہ واقعہ بھارتی فوج کے جنگی جرائم میں شامل کیا جاتا ہے، مگر بھارتی حکومت نے ہمیشہ اس کی پردہ پوشی کی کوشش کی۔
واقعے کو بے نقاب کرنے والے اداروں اور مصنفین کی کاوش لائق تحسین جنہوں نے ان واقعات کو رپورٹ کیا
سب سے پہلے مقامی صحافیوں اور اخبارات نے اس خبر کو رپورٹ کیا، مگر بھارتی میڈیا میں اسے دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
کچھ بین الاقوامی میڈیا اداروں جیسے The New York Times اور The Guardian نے اس واقعے پر رپورٹنگ کی، جس سے یہ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ،انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں جیسے Amnesty International اور Human Rights Watch نے تفصیلی رپورٹیں جاری کیں اور بھارتی فوج کے ظلم کو بے نقاب کیا۔جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن
نے بھی اس واقعے پر تحقیقات کیں، مگر بھارتی حکومت نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
کتاب
“Do You Remember Kunan Poshpora”
جو احمر بشیر نے بڑی تگ و دو سے امریکہ سے کنیڈا منگوائی اور وھاں سے کراچی پہنچائی۔
پانچ کشمیری خواتین مصنفین نے یہ کتاب لکھی، جن میں مہوشہ بٹ، ناتاشا راتھور، مریم قریشی، انجم زیا اور بینش بشیر شامل ہیں۔ یہ کتاب 2016 میں شائع ہوئی اور اس میں بھارتی فوج کے جرائم کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
پروین آہنگر اور خرم پرویز
یہ دونوں کشمیری انسانی حقوق کے کارکن ہیں جنہوں نے کنن پوشپورہ کیس پر عالمی توجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ واقعہ ربع صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی بھارتی فوج کے جنگی جرائم کی علامت کے طور موجود ہے، اور کشمیری عوام کے خلاف جاری مظالم کو نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ بھارت کی کشمیریوں کے خلاف مذموم زہنیت کو بے نقاب کرتا ھے
یہ کتاب آزاد کشمیر کے موجودہ حالات میں جہاں بڑی منصوبہ بندی و بڑی شد مد کے ساتھ نوجوانوں میں منفی تاثر پھیلایا جارھا ھے پڑھنے کے لائق ھے اور اس پر سیمنار منعقد کرنے کی ضرورت ھے تاکہ عام لوگوں تک بھارت کا مکروہ چہرہ و مذموم عزائم آشکار ھوں جو لوگ بھارت اور پاکستانی افواج کو یکساں تصور کرتے ھیں اور اس پار بھی آزادی اور اس پار بھی آزادی کے نعرے لگاتے نظر آتے ھیں ان کے لئے یہ کتاب ایک چشم کشا انکشاف کی حامل ھے۔لیکن ھمارے ھاں اب کتب بینی کے بجائے تماش بینی پر زیادہ توجہ مبذول نظر آتی ھے جو ایک المیہ سے کم نہیں ھے۔
بشیر سدوزئی نے اس ماحول میں اس کتاب کو ذاتی حیثیت میں شائع کرکے بڑی خدمت بھی بجا لائی ھے اور راھنمائی بھی فراھم کی ھے جس پر وہ نہ صرف ھماری تحسین کے مستحق ہیں بلکہ ھم بحیثیت کشمیری انکے ممنون احسان ھیں۔ بشیر سدوزئی نے اس کتاب کی خرید پر زیادہ زور دینے کے بجائے اسے پڑھنے اور اسکے حوالوں کو زرائع ابلاغ کے زریعے پھیلانے اور بھارتی عزائم اور مظالم کے بے نقاب کرنے کی خواھش کا اظہار کرکے کشمیر سے اپنی انمٹ محبت،اخلاص و ایثار کی مثال قائم کی ھے اگرچہ کتاب خریدنا آسان اور پڑھنا مشکل کام ہے۔