ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب…کشور ناہید

یہ شام ہے31؍دسمبر 2000ء کی ، میں خضدار میں عورتوں کی فنی ورکشاپ کے بعد واپسی کیلئے باہر نکلی تو شام 5؍بجے تھے، آسمان پہ گہرے بادل اور ہلکی بارش تھی سوچا ڈھائی گھنٹے میں کوئٹہ واپس پہنچ جائوں گی، سارے ادیب، دوستوں کے درمیان پہنچوں گی بہت مزا آئے گا، ابھی میری گاڑی وڈھ کے مقام پر پہنچی ہی تھی کہ بارش اور برفباری تیز ہوگئی، ہمارے آگے پیچھے بہت سی گاڑیاں تھیں، تیز برف باری کے باعث سب بہت آہستہ چل رہی تھیں، کہیں کہیں تو گاڑیاں تھم گئیں، آگے برف کی تہہ گہری تھی اور گاڑیاں سلپ کر رہی تھیں، ڈرائیور گاڑی کو گھما کر چلا رہے تھے میں نےکہا ’’آپ یہ کیا کر رہے ہیں‘‘ ڈرائیور نے کہا برف باری میں گاڑی کے پہیے جم نہ جائیں، اس لئے یوں کرنا پڑتا ہے۔ایک جگہ سب گاڑیاں رک گئیں اور لوگ باہر نکل کر دیکھنے لگے کہ کتنی لمبی قطار ہے، میرے پیچھے ثنااللہ بلوچ کی گاڑی تھی، ان کو دیکھ کر میں بھی نکل آئی چونکہ یہ برف باری معمول کی بات تھی، لوگ نہ ہراساں تھے نہ پریشان کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ ارے آپ اکیلی جارہی ہیں، بہرحال جب ہم لک پاس پر پہنچے تو اب صرف بارش نہیں بہت تیز ہوابھی تھی، چڑھائی کا مقام تھا، اب تو گاڑیوں کو ادھر سے ادھر چلتے دیکھ کر میں بھی خوفزدہ ہوگئی اور آدھے گھنٹے کے بعد ہم کوئٹہ شہر میں تھے، دوستوں کے درمیان31؍دسمبر کی شام شہر گوئی میں گزاری اور اگلی صبح کوئلوں کی کانوں کو سفید برف میں چھپا دیکھ کر سب مسکرائے، میں نےواپسی کیلئے سب سے اجازت لی۔ اب رخ بدلتی ہوں تو سامنے ٹی وی اسکرین پر کوئٹہ سے چلنے والی 400؍مسافروں کی ٹرین میں یلغار کرنے والوںکی خبر ہے ، بتایاجارہا کہ بی ایل اے کے دہشت گردوں نے ٹرین رکوالی ہے اور کوئی واضح صورت حال نہیں ہو رہی۔

میرےذہن میں فوراً آیا کہ کتابوں میں پڑھا تھا کہ انگریزوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر بولان کے علاقے میں 17؍سرنگیں بنائی تھیں، پھر کالج کا زمانہ یاد آیا کہ ہم لوگ جب کوئٹہ پہلی دفعہ گئے تھے تو ٹرین سرنگوں سے ہوتی جارہی تھی، گھپ اندھیرے کو ہم سب نے بہت انجوائے کیاتھا۔پھر یاد آیا1971ء کا زمانہ جب عطاءاللہ مینگل وزیراعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر تھے مگر ان کی حکومت کو ہٹا دیا گیا تھا۔ کہا گیاکہ علیحدگی پسندوں یعنی خیربخش مری اور شیر محمدشیرف نے کوئی شرارت کی ہے،پھر میری توجہ ٹی وی اسکرین کی طرف گئی،وزیراعظم کوئٹہ میں موجود صورتحال پر گفتگو کر رہے تھے، ہر دوسرے منٹ کیمرہ ڈاکٹر مالک کے چہرے پر جاری غصے کی شکلوں پر مرکوز رہتا، میں چونکہ ڈاکٹر مالک سے پرانی یاد اللہ رکھتی تھی ان کے نظریات سے آشنا اور ان کے ساتھ کام کرچکی تھی، بہت سی شامیں حاصل بلوچ اور مالک کے ساتھ صحافیوں کی سنگت میں بلوچستان کے مسائل پر کرچکے تھے، اس لئے ڈاکٹر مالک کا کیمرے میں چہرہ دیکھ کر یہی فقرہ منہ میں آرہا تھا اب بہت دیر ہوچکی ہے۔’’ہر حکومت نے بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح سیاسی طور پر سمجھا ہوا ہے۔‘‘ یہ فقرہ کوئٹہ میں عام تھا۔اب مجھے بگٹی صاحب کی گورنر شپ کا زمانہ یاد آیا کہ جب ہم لوگوں کو عطا شاد نے ان کے دفتر میں متعارف کروایا اور وہ اپنے ہاتھ سے ہمیں چائے کے کپ دے رہے تھے اور پھر بگٹی صاحب کی 18؍ویں برسی پر بلوچ لبریشن فرنٹ کی ساری تنظیموں کا ایک بلاک بنا، سب نے وہ زمانہ یاد کیا جب بگٹی صاحب کے جسد خاکی کو ایک تالے میں بند بکس میں لایا گیا ، عوام کا غصہ اس دن کے بعد پورے بلوچستان کو نہلا گیا، کبھی ہزارہ کے لوگوں کو مارا جارہا ہے،کبھی پنجابیوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں ماری جا رہی ہیں، کبھی سنا ’’خواتین کو بھی بمبار بنایا جا رہا ہے۔‘‘ بلوچستان کا وہ حصہ جو شروع سے بنجر ہے اس پر 75؍سال میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، پچھلے سال آپ کو یاد ہوگا بلوچی اور گوادر کے لوگ ایک بڑے گروہ کی شکل میں تربت سے برف زدہ علاقوں سے ننگے پیر پیدل چلتے ہوئے لاپتہ افراد کیلئے فریاد کرتےاسلام آباد پہنچے تو ہماری حکومت کو کام آتا ہے، وہ کیا؟’’ یعنی فساد کرنے والوں کو‘‘ اندر کردیا پھر شور مچا تو رہا کردیا اور چھ ہفتےکی کوشش کے بعد بے نیل ومرام، یہ قافلہ واپس گیا، حکومت کواور بہت سے کام تھے، طالبان اور انڈیا سے نمٹنا کوئی تھوڑا کام ہے۔اب دو دن بعد جب ٹی وی اسکرین پر کوئی بات واضح نہیں ہو رہی تھی تو بی بی سی لگایا، وہاں بھی انڈین صحافی بول رہے تھے، اللہ کا شکر کہ تیسرے دن بتایا گیا کہ سارے دہشت گرد مار دیئے گئے اور 400؍مسافروں میں سے کچھ انہوں نے مار دیئے اور کچھ لوگ اگلے دن صبح اپنا سامان چھوڑ کر پیدل ہی چٹانوں کے درمیان پتھریلے راستوں سے نکل بھاگے، باقی جو بچے ان کی بے ربط گفتگو سے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، البتہ وزیراعلیٰ بلوچستان بگٹی صاحب جلال میں بولتے ہوئے تمام لوگوں کو بلوچ وقار، تہذیب کی روایات یاد کرا رہے تھے اور پھر وزیراعظم صاحب کو آپ نے دیکھا ہوگا اور کیمرہ بار بار ڈاکٹر مالک کا چہرہ دکھا رہا تھا۔2006ء میں بگٹی صاحب کی ہلاکت کے بعد سے مشترکہ علیحدگی پسندوں کے گروپ میں طالبان بھی اپنا ’’لچ ‘‘ تلتے رہے، اجتماعی اور باقاعدہ تیاری کے بعد ٹرین پر اس حملے نے حکومت کو آرام سے سحری بھی نہیں کھانے دی اور اب بات وہ بھی قومی سطح پر اجلاس کرنے میں پھر آگئی کہ کون اب قومی لیڈر ہے اور کون نہیں، ابھی تک مختلف جگہوں پر دھماکے اور خودکش حملے، بلوچستان میں جاری ہیں ہم لوگ پیکا سے ڈر کر جن اینکروں کو ہٹا کر نئے آزما رہے ہیں ابھی دیر ہونے کی بات، ڈاکٹر مالک اور دیگر سنجیدہ سیاست دان وہ بھی بلوچ ہیں بھی بول رہے ہیں ’’بہت دیر ہوگئی۔‘‘ جبکہ اسلام آباد میں ہم سب افطار پارٹیوں میں مصروف ہیں بقول ’’اب عید کے بعد کوئی تحریک اٹھائیں گے۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ