رحمتوں برکتوں مغفرتوں کا مقدس موسم تیزی سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کا افق اذانوں، قراتوں سے گونج رہا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک رسول اکرم ﷺ کے شیدائی قران پاک کی تلاوت روز و شب کر رہے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ نااہل کمزور حکومت کی پالیسیوں کے باعث اس مقدس مہینے میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے۔ بہنیں بین کر رہی ہیں۔ باپ بڑھاپے کے سہارے سے محروم ہو رہے ہیں۔ رمضان کے مبارک دنوں میں تو غیرمسلم بھی جنگیں بند کر دیا کرتے تھے۔ بلوچستان میں تواتر سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ کے پی کے سے بھی ایسی ہولناک خبریں آرہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسیات کے ایک طالبعلم اور صحافت کے ایک احقر کی حیثیت سے بار بار سوچتا ہوں کہ 1971ء کے المیہ کے بعد ہمارے ہاں تخریب کاری دہشت گردی منافقت مصلحت اور ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کیوں بڑھ گئی ہے۔ کیا یہی اسباب نہیں تھے سقوط مشرقی پاکستان کے۔ ملک کے اکثریتی صوبے کی علیحدگی کے بعد تو ہمارے ہاں قومی حمیت میں اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ ملک کی بہبود مملکت کے وقار میں بڑھاوے کیلئے نادار مجبور مقہور کروڑوں کیلئے ہمدردی بڑھنی چاہئے تھی۔ ہمیں اپنے لسانی نسلی علاقائی صوبائی تعصبات ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف پاکستانی ہو جانا چاہئے تھا لیکن ریاست کی طرف سے رویے اختیار کیے گئے نہ حکمرانوں نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں اور نہ ہی ہمارے دانشوروں نے کوئی ایسے تصورات پیش کیے جس سے مملکت کے دوام وقار اور سربلندی میں اضافہ ہوتا بلکہ ہمارے ہاں اسکے بعد علاقائی تعصبات میں شدت ائی۔ فوج نے 1971ء کی شدید ہزیمت کے بعد صرف چھ سال بعد ہی دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا شہید ذوالفقار علی بھٹو واحد سویلین لیڈر تھے جنہیں مجبورا 20دسمبر 1971ء کو پورا اقتدار سونپنا پڑا جنرل محمد یحییٰ خان کے پاس جتنی ٹوپیاں تھیں حالات کا ایسا جبر تھا کہ وہ سب بھٹو صاحب کو پہنا دی گئیں صدر مملکت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ارمی چیف چیف ایگزیکیٹو۔ ملک لیگل فریم ورک ارڈر کے تحت چل رہا تھا کسی دستور کے تحت نہیں اسلئے یحییٰ خان نے جو اختیارات بھی سنبھالے ہوئے تھے وہ بھٹو صاحب کے سپرد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
پاکستان میں ایسی انہونیاں بار بار ہوتی رہی ہیں تاریخ دانتوں میں زبان دبائے 1947ءسے یہ حالات دیکھتی رہی ہے .پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں فوج سیاستدانوں بیوروکریسی نے ہر قسم کے تجربے کیے ہیں 1953ء لاہور میں مقامی مارشل لا سے لیکر 1958۔ 1969۔1977۔ 1999تک کے تجربات میں آپ کو ہر مارشل لا کے نفاذ کے اسباب الگ الگ ملیں گے۔ 1999ءکے فوجی اختیار کو تو مارشل لاکا نام بھی نہیں دیا گیا۔ اسے تو آپ کارپوریٹ فوجی انتظامیہ کہہ لیں کیونکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک کے چیف ایگزیکٹو قرار دیے گئے صوبوں میں زونل مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نہیں تھے بلکہ معمول کی حکومتیں ہی قائم کی گئیں ۔ہم ہر قسم کی فوجی اور سیاسی حکمرانی کے تجربات کر چکے ہیں۔ اب فروری 2024ءسے ہم جس حکمرانی کا تجربہ کر رہے ہیں اس کا ابھی تاریخ نے تو کوئی نام نہیں طے کیا سوشل میڈیا پر اسے بہت سے نام دیے جا چکے ہیں۔ یہ اپنی قسم کا حاکمانہ ماڈل ہے۔ اس میں خواتین کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک خاتون کی ہمہ مقتدر حکمرانی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ ملک کا آئندہ وزیراعظم ہی ہوتا ہے ہمارے شریف خاندان میں تو یہی روایت رہی ہے۔ یہ موجودہ تجربہ کیسا جا رہا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ کار کچھ حقیقت پسند انہ جائزہ لے سکتے ہیں۔ مغربی ممالک کے تجزیہ کار اپنے معروضی جائزے لے رہے ہیں۔
دنیا میں ہر قسم کے حکومتی تجربات ہو چکے ہیں قبائلی سربراہی سے بادشاہت تک۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی یورپی امریکی ایشیائی مفکرین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ملک کے عوام کی اکثریت کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنے میں سے کسی حکمران کا انتخاب کریں. اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قران پاک میں” اولی الامر منکم” کا خطاب دے چکے ہیں آج سے 1500 سال پہلے ایک شوری کا تصور دیا جا چکا تھا اب جو جمہوریت ہے اس میں صدارتی نظام بھی ہیں پارلیمانی نظام بھی متناسب نمائندگی بھی۔ فوج اور عوام کی ملی جلی حکومت کا نظام ترکی میں چلتا رہا ہے۔ پھر انڈونیشیا یونان برما مصر عراق میں حکومت میں فوج کے شراکت کے تجربے ہو چکے۔ یونان میں تو ڈیموکریسی ایٹ گن پوائنٹ بھی ہو چکی۔ تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ جہاں ملکی اکثریت کی حکمرانی کے حق کو دیانتداری سے چلنے کا موقع دیا گیا وہاں رفتہ رفتہ ایک استحکام ہوتا گیا سسٹم بنتے گئے۔ شہر صوبے اور مرکز کی حکومتوں کے تین سطحی نظام نے ان ملکوں میں معیشت کو بھی مستحکم کیا ایک ایک فرد کو عزت وقعت اور مالی سہولتیں ملیں۔ ایسے ہی یورپی ممالک میں جانے کیلئے ہمارے نوجوان ڈنکی بھی مارتے ہیں اپنے آبائی مکان بیچ دیتے ہیں۔ ان ممالک میں زیادہ تر خواتین کی حکمرانی ہے۔ کووڈ کے خطرناک زمانے میں جہاں جہاں خاتون حکمران تھیں وہاں اس عالمگیر وبا کا مقابلہ مردانہ وار کیا گیا ۔انکی معیشت پر اس وبا کے دور رس اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اس وقت ہمارے ہاں جس حکمرانی کا تجربہ ہو رہا ہے یہ بالکل ایک نیا فارمولا ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ اسی قسم کا تجربہ ہوا یہ بادشاہوں کے دور کا ماڈل ہے خاص طور پر مغلوں کا جب صوبے اپنے من پسند سرداروں کے حوالے کر دیے جاتے تھے۔ موجودہ تجربے میں ایک صوبہ پاکستان مسلم لیگ نون کو دو صوبے پاکستان پیپلز پارٹی کو اور ایک صوبہ پاکستان تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے۔ بلوچستان میں سول حکمرانی کی عمر دوسرے صوبوں سے کم ہے مگر قدرت کا کرشمہ دیکھیے یہ صوبہ اپنے رقبے اور ابادی کی مناسبت سے اپنی ابادی اور معدنیاتی خزانوں کے تناسب سے اس وقت ملک کا امیر ترین صوبہ ہے۔ مستقبل کے سارے امکانات اس صوبے میں ہیں۔ دنیا میں زیادہ ابادی اور کم زمین کے مسائل ہیں۔ بلوچستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے معدنی خزانے بہت ہیں۔ توانائی ہے ۔بہت محنت کرنیوالے جفا کش انسان ہیں۔ محبت اور احترام کرنیوالی مخلوق۔یہاں آج تک حقیقی اور خالص جمہوریت کا تجربہ کیا ہی نہیں گیا۔ ہمیشہ حکمران مسلط کیے گئے۔ وہاں کے نوجوانوں کو اپنائیت کی خوشبو کبھی نہیں ملی۔ رمضان کے مبارک دنوں میں شدت کیوں بڑھ رہی ہے کیا یہ میڈیا کی عدالتوں کی اور درسگاہوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان اسباب کا تعین کریں نشاندہی کریں پھر حقیقی طور پر منتخب حکومتوں کی کہ وہ ان اسباب کو دور کریں دلوں میں جھانکیں. اب آپ ہی بتائیے کیا بلوچستان میں ایسا ہو رہا ہے کیا دوسرے صوبوں میں ایسا ہو رہا ہے؟
بشکریہ روزنامہ جنگ