پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت اور افواجِ پاکستان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی پائی جاتی ھے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متعدد اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا، سابق فاٹا، اور جنوبی وزیرستان میں جو کامیابیاں حاصل کی ھیں اس سے دھشت گردوں کی کمر تو ٹوٹی ھے لیکن اگر دھشت گردی کے تانے بانے صرف اندرون ملک میں ھوں تو ان سے نبٹنا افواج پاکستان کے لئے کوئی زیادہ دشوار نہ ھو لیکن پاکستان کے خلاف دھشت گردی اور فنڈنگ میں بعض پڑوسی ممالک کی مداخلت اور بیرون ممالک میں بیٹھے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی کمک زیادہ نمایاں ھے۔
داخلی سطح پر کہیں پارلیمانی جماعتیں (تحریک انصاف و حلیف جماعتیں و شخصیات)،حقوق انسانی کی تنظیمیں،اعلی عدالتیں،نام نہاد مسنگ پرسنز کی صدائے باز گشت اور اس طرح کے دیگر عوامل دھشت گردی کے مکمل خاتمے میں مزاحم رھتے ھیں اس کے لئے اعلیٰ سطحی فیصلے لازم ھیں تاکہ اس عفریت سے پاکستان کو محفوظ بنایا جاسکے اس کے لئے قوانین میں ترامیم،دھشت گردوں کے خلاف مقدمات کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل اور پارلیمنٹ و دیگر اداروں کی جانب سے مکمل تعاون ناگزیر ھے دنیا بھر میں دھشت گردوں سے نبٹنے کے لئے کوئی رو رعایت نہیں برتی جاتی لیکن ھمارے ھاں بہت سے عوامل اس میں مزاحم رھتے ھیں۔
افواج پاکستان طویل عرصے سے ملک سے دھشت گردی ک خاتمے کے لئے سرگرم عمل ہیں جس میں اسوقت تک ھزاروں کی تعداد میں جوان و آفیسرز شہادت پا چکے ھیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔حال ھی میں جعفر ایکسپریس کے یرغمالیوں کو جس پیشہ ورانہ مہارت سے نبٹا گیا عالمی اور قومی سطح پر افواج پاکستان کی تحسین کی گئی ھے۔افواج پاکستان نےحساس علاقوں میں خفیہ اطلاعات پر مبنی آپریشنز کے نتیجے میں کئی دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا ھے، ان کے نیٹ ورکس تباہ کیے گئے، اور اسلحہ و بارود کے ذخائر برآمد کیے گئے۔
خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا میں بھی دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی گئی ہیں۔ جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں کئی کامیاب آپریشنز کیے گئے، جن میں متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ بارودی سرنگوں کی صفائی، سرحدی نگرانی میں اضافے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا ہے۔
حکومت اور فوج مل کر انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ان کامیابیوں کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، اور افواجِ پاکستان ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں
18 مارچ 2025 کو پارلیمنٹ ہاؤس، اسلام آباد میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم ان کیمرہ اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی۔ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی عاصم ملک، وزیر دفاع خواجہ آصف،وزیر داخلی محسن نقوی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بریفنگ دی گئی، جس میں دشمن ممالک، گروہوں اور شرپسند عناصر کے کردار کو بے نقاب کیا گیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری قیادت، خصوصاً آرمی چیف کے کردار کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی حکمت عملی پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملکی سیکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک یا شخصیت نہیں۔ انہوں نے علما سے اپیل کی کہ وہ انتہا پسند عناصر کے بیانیے کا مؤثر جواب دیں اور نوجوانوں کو دہشت گردوں کے چنگل میں جانے سے بچانے میں مدد کریں۔دھشت گردوں کے لئے اب دھشت گرد کی اصطلاح بے معنی ھوکر رہ گئی ھے انہیں خوارج قرار دیکر انکی مکمل سرکوبی کی جائے اور اس کے لئے پوری قوم یکجا ھو اور علما کرام سمیت تمام مکاتب فکر انکی بیخ کنی کےلئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ھوں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حسب سابق قومی یکجہتی سے انحراف کا ثبوت دیا اجلاس کا بائیکاٹ کیا، حالانکہ ایک روز قبل انہوں نے اپنی 16 رکنی ٹیم کے نام دیئےتھے لیکن جب اجلاس شروع ھوا تو انہیں خان کا پیغام موصول ھوا کہ اس اجلاس کا بائیکاٹ کرنا ھے۔ تاہم، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اجلاس میں شرکت کی اور صوبے کا مؤقف پیش کرتے ہوئے حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں پر حسب سابق الزامات اور افغان مذاکرات پر زور دیا انکی تقریر فورم کو ایڈرس کرنے کے بجائے خان کو سنانے کے لئے لگ رھی تھی کہ انکی وزارت اعلیٰ پکی رھے قومی سلامتی اور دھشت گردی کا خاتمہ جائے بہاڑ میں۔
اجلاس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم، گورنرز، آئی جیز پولیس اور دیگر اعلیٰ عسکری و دیگر سٹیک ھولڈرز شریک تھے۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 16 اراکین، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں 4 اراکین، جبکہ جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان بلوچستان سے ڈاکٹر عبدالمالک سمیت قومی اسمبلی و سینٹ کے اراکین نے بھی شرکت کی۔ اسلام آباد میں مبینہ تھریٹس کے پیش نظر پارلیمنٹ ہاؤس کے گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور چھت پر اسنائپرز تعینات رہے۔
اجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم شہباز شریف نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس پر تمام شرکا کا اتفاق رائے تھا، جس میں مختصراً درج ذیل نکات شامل تھے:
1. نیشنل ایکشن پلان اور عزمِ استحکام حکمت عملی پر فوری عمل درآمد، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور مالی معاونت کا مکمل خاتمہ۔
2. سوشل میڈیا پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی روک تھام، ان کے پروپیگنڈے، بھرتیوں اور منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لیے سخت اقدامات۔
3. سیکیورٹی فورسز کی مکمل حمایت اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں قومی یکجہتی کو یقینی بنانا۔
بین الاقوامی سطح پر جنرل عاصم منیر کی پذیرائی
امریکی عسکری جریدے “یونی پاتھ” نے جنرل عاصم منیر کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف 22,409 انٹیلی جنس آپریشنز کی قیادت کی، جن میں 398 دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ جریدے کے مطابق، انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ اجلاس ملکی سلامتی، دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اور قومی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوا۔ حکومت اور عسکری قیادت نے ایک واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور قومی وحدت کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا۔
پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے مکمل تحفظ کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہیں:
1. مضبوط اور موثر انٹیلی جنس نظام
خفیہ اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کو بہتر بنایا جائے۔جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کو انٹیلی جنس آپریشنز میں شامل کیا جائے۔
مقامی سطح پر کمیونٹی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط کیا جائے تاکہ مشکوک سرگرمیوں کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔
2. مؤثر بارڈر کنٹرول اور اسمگلنگ کی روک تھام
پاکستان کے افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدوں پر سخت نگرانی کی جائے۔
غیر قانونی اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ کی مکمل روک تھام کے لیے جدید اسکیننگ اور سرحدی فورسز کو جدید ٹریننگ دی جائے۔
3. انتہا پسندی کے بیانیے کا خاتمہ
تعلیمی نصاب میں رواداری اور برداشت کے اصولوں کو فروغ دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد اور دہشت گردوں کی پروپیگنڈہ مہمات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مذہبی رہنماؤں اور اسکالرز کو ساتھ ملا کر امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کا بیانیہ عام کیا جائے۔
4. نیشنل ایکشن پلان (NAP) کا مکمل نفاذ
نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے بینکنگ اور فنانشل سسٹم کو مزید شفاف بنایا جائے۔
مدارس اصلاحات کو مؤثر بنایا جائے تاکہ شدت پسندی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔
5. جدید پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید اسلحہ، تربیت اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے۔
انسداد دہشت گردی فورس (CTD) کو مزید وسائل فراہم کیے جائیں۔
دہشت گردوں کو پناہ دینے یا ان کے سہولت کاروں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔
6. عدالتی اصلاحات اور فوری انصاف
انسدادِ دہشت گردی عدالتوں (ATC) کو مزید فعال بنایا جائے۔
دہشت گردی کے مقدمات میں تاخیر ختم کی جائے اور سخت سزائیں یقینی بنائی جائیں۔
ویٹنس پروٹیکشن سسٹم کو مضبوط کیا جائے تاکہ گواہ خوف کے بغیر بیانات دے سکیں۔
7. عوامی شمولیت اور آگاہی مہمات
شہریوں کو دہشت گردوں کی شناخت اور ان کے خلاف رپورٹنگ کے حوالے سے شعور دیا جائے۔
میڈیا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا پابند بنایا جائے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی سنسنی خیزی کے بجائے ان کی روک تھام پر توجہ دی جائے۔
8. عالمی تعاون اور سفارتی کوششیں
پڑوسی ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کو بہتر بنایا جائے۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے تاکہ دہشت گردوں کی فنڈنگ اور نیٹ ورکس کو عالمی سطح پر روکا جا سکے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں سیکیورٹی، انٹیلی جنس، عدلیہ، معیشت، تعلیم اور سماجی اصلاحات کو یکجا کیا جائے۔ اگر یہ اقدامات سنجیدگی سے نافذ کیے جائیں تو پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے مکمل طور پر محفوظ ہو سکتا ہے۔
