بھارت: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور دہلی کی افطار پارٹیاں : تحریر افتخار گیلانی


ابھی حال ہی میں بھارت کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہردوار کے ایک کالج میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقدہ افطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالب علموں کو افطار کے وقت کھانا لانے اور اس کودیگر طلبہ کے ساتھ مل بانٹنے پر پابندی عائد کی۔ اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے احاطہ میں نماز ادا کرنے پر ایک طالب علم کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ ایک وقت تھا کہ خاص طور دارالحکومت دہلی میں رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افطار پارٹیاں منعقد کرنا اور اس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھانا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیر اعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کی آواز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کیلئے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ جیسے جیسے مسلمانوں کو2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئیں۔موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پر افطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔ اس کے لیڈروں و سابق وزرا سید شاہنواز حسین اور وجے گوئیل کی افطار پارٹیاں دہلی کی اشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجے گوئیل تو پرانی دہلی میں سحری کا انتظام کرتے تھے۔ رات بھر ایک سماں ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جو اس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈردہلی وارد ہوکر اس میں شرکت کرتے تھے۔ بعد میں کئی بار پارٹی نے اس کو دفتر کے بجائے اشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کو افطار کرواتی تھی اور پر میز پر چند لمحے توقف کرکے سبھی کا حال چال پوچھتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نے اپنے دفتر اشوکا روڈ پر 1998میں ایک افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی، اس لئے وزیر اعظم بننے کے بعد اٹل بہاری واجپائی پارٹی، دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014سے قبل ماہ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سے افطار پارٹیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھیں۔ اس مقدس ما ہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔ وزیراعظم ہاوس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کے اعلی اہلکاروں کے ساتھ بلمشافہ ملاقات ہوتی تھی اور خاصی آف دی ریکارڈ انفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نے افطار پارٹی میں شمولیت کی اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔ صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے۔ 1998میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقدہ افطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے، افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے، ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنیدہ مسلمانوں کو افطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انہوں نے کھانے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔ اب مغرب کی نماز ادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح اس نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے لان کو صاف کروایا۔اب جس وقت روزہ دار نماز ادا کررہے تھے کہ کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردیے۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہوتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنواز اور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔ دارالحکومت دہلی میں 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فورا بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نے اپنے وزرا کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ، اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ آہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیے۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر بھارت جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کا ایک آوٹ ریچ کا ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔ کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا، اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتی تھیں۔ لوگ عام طور پر اپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ کے دوران تقریبا سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے۔(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز