پیکا ایکٹ The Prevention of Electronic Crimes Act 2025 اس وقت پاکستان بھر میں موضوع بحث ھے پارلیمنٹ ،عدلیہ انتظامیہ،میڈیا اور ھیومن رائٹس کے اداروں میں اس پر تحفظات کا اظہار کیا جا رھا ھے
ھم سخن فہم ھیں غالب کے طرف دار نہیں
برصغیر پاک و ھند کے معروف شاعر اسد اللہ غالب کے اس مصرعے کا سہارا لیتے ھوئے خامہ فرسائی کا ارادہ کیا
اس قانون کی منظوری ھماری مشاورت سے ھوئی ھے نہ ھم (اللہ نہ کرے) اس کا شکار ھوں کہ قبل از وقت تشویش کا اظہار کریں۔ یہ قانون کسی بھی ایسے فرد پر لاگو بھی نہیں ھوگا جو اس میں درج جرائم کا مرتکب نہ ھو۔ بنیادی طور پر یہ قانون الیکٹرونک ڈیواسز کے زریعے پھیلائے یا کئے جانے والے جرائم کی بیخ کنی اور رکاوٹ کے لئے استعمال ھونا بیان کیا جاتا ھے۔
قوانین کی جیورس پروڈنس یہی ھوتی ھے کہ معاشرے اور سوسائٹی میں اقدار کے تحفظ اور بہتری کے لئے قوانین تشکیل دیئے جاتے ھیں یا جو انسانیت کے نقصانات کا باعث بن رھے ھوں انکی سزا یابی و رکاوٹ کے زریعے انکو تحدید میں لانے کے لئے قانون سازی کی جاتی ھے۔ یہ فیصلہ کہ کون سا قانون بنانا ھے اس میں بہتری لانے اور جدید تقاضوں کے مطابق موثر ترمیم کرنی ھے یہ بنیادی طور پر قانون ساز اداروں کے اراکین کی ذمہ داری ھوتی ھے جنہیں عوام اپنے نمائندے کے طور پر ان فورمز میں بذریعہ انتخابات بھیجتے ھیں جب قوانین اسمبلیوں میں پیش ھوتے ھیں ان قوانین پر رائے شماری سے پہلے بالعموم سلیکٹ کمیٹیاں تشکیل پاتی ھیں انکے سامنے یہ قوانین رکھے جاتے ھیں وھاں ایوان کے دونوں جانب کے نمائندے موجود ھوتے ھیں جو ان قوانین کی جانچ پڑتال کرتے ھیں اسکے مندرجات درست کرتے ھیں یا ناپسندیدہ خیال کئے جانے والے مندرجات ترک کرتے ھیں۔
موجودہ قانون ان مدارج سے گزرا ھوگا اور اگر نہیں گزرا بہ عجلت منظور ھوگیا ھو تو یقیناً اس پر متعلقہ لوگوں کے تحفظات و خدشات بجا ھونگے اس کے لئے اب انہیں اعلیٰ عدالتوں کی طرف رجوع کرنا ھوگا جنہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی قانون کو آئین کی منشاء کے مغائر سمجھنے پر منسوخ کر سکتے ھیں۔
میں ذاتی طور پر اس کی حمایت یا مخالفت پر اظہار خیال کے بجائے اس کے پس منظر پر اظہار خیال منا سب سمجھتا ھوں۔
جہاں تک اس قانون کے مثبت پہلوؤں کا تعلق ھے اسکا مقصد الیکٹرانک جرائم کو روکنا اور انکی تفتیش کرنا ھے جیسے سائبر دھشت گردی،ھیکنگ،آن لائن ھراساں کرنا،قومی سلامتی کا تحفظ،اور قانون نافذ کرنے والے قومی اداروں کو قومی سلامتی کے متعلق جرائم کی تحقیقات اور چارہ جوئی کے لئے ایک فریم ورک مہیا کرتا ھے۔
یہ قانون حکومت کو آن لائن مواد کی باقاعدہ منظم کرنے کی اجازت دیتا ھے جس میں قابل اعتراض یا نققصان دہ سمجھے جانے والے مواد کو مسدود کرنا یا ھٹانا شامل ھے۔
جہاں اس قانون کے یہ مثبت پہلو ھیں وھاں اسکے کچھ منفی پہلو بھی بیان ھو رھے ھیں اسکے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ ایکٹ آزادی تقریر،تحریر اور اظہار خیال کو محدود کرتا ھے کیونکہ اس سے حکومت کو بلا تفریق آن لائن مواد کو روکنے یا ھٹانے کا اختیار ملتا ھے۔ایکٹ کی دفعات اکثر مبہم اور حد سے زیادہ وسسعت رکھتی ھیں جو من مانے نفاذ اور طاقت کے غلط استعمال کا باعث بن سکتی ھیں جن سے شہریوں کی آزادی پر ضرب لگتی نظر آتی ھے ان تحفظات و خدشات کی ایک طویل فہرست ھے جو ماچس کی ڈبیا بنانے بارے قانون سازی پر بھی لاگو ھوسکتی ھے کہ اس سے کتنے نقصانات وقوع پزیر ھو سکتے ھیں۔میں سمجھتا ھوں کہ اس قانون میں اصلاحات اور تحفظات دور کرنے اور مبینہ معترضین کو ممکنہ حد تک اعتماد میں لینے کی اشد ضرورت ھے لیکن ھمیں بحیثیت ایک ذمہ دار پاکستانی کے اس قانون کے پس منظر اور ان محرکات کے ادراک کی ناگزیریت کا بھی احساس ھونا چائیے کہ پاکستان گزشتہ دس گیارہ سال سے کن حالات کا شکار رھا ھے اس میں افراد کا بھی عمل ھو سکتا لیکن افراد سے بھی زیادہ اداروں کے ارباب بست و کشاد کا کردار بھی ایک سوالیہ نشان رھا ھے قومی سلامتی کے اداروں کے زمہ دران جنرل پاشا،ظہیر الاسلام،باجوہ اور فیض حمید کے مبینہ اقدامات اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز ثاقب نثار،کھوسہ، بندیال وغیرہ کے فیصلہ جات ماورا آئین و قانون رھے ھیں اور تحریک انصاف کو انکی پشت پناھی اب کوئی راز نہیں ھے بلکہ طشت از بام ھو چکی ھے ایسے حالات میں پاکستان کی قومی سلامتی کو پہنچنے والے نقصانات کے تدارک اور انسداد کے لئے ایک متوازن،مضبوط و موثر قانون سازی کی اشد ضرورت تھی۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے تیزی سے ارتقاء نے پاکستان میں معلومات کو پھیلانے اور استعمال کرنے کے طریقے کو تبدیل کردیا ہے۔ اگرچہ ان پیشرفتوں نے اظہار اور رابطے کے لئے نئی راہیں کھول دی ہیں ، لیکن وہ قومی سلامتی ، معاشرتی ہم آہنگی اور انفرادی رازداری کے لئے بھی اہم چیلنجز پیش کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ، پاکستان نے آن لائن نفرت انگیز تقریر ، نامعلوم منفی اور نفرت و شر انگیز معلومات اور ریاستی مخالف پروپیگنڈہ میں اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے ، جس نے ملک کے معاشرتی،معاشی،دفاعی،
سماجی تانے بانے کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی ہے۔ پی ٹی آئی کی جارحانہ آن لائن مہم ، خاص طور پر اپریل 2022 میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد ، اس مسئلے میں اہم معاون ثابت ہوئی ہے۔
اس تناظر میں ، پاکستان میں آن لائن ماحولیاتی نظام کو متوازن اور کنٹرول کرنے کے لئے پیکا ایکٹ 2025 کا نفاذ ضروری تھا۔ اس قانون کا مقصد آن لائن مواد کو منظم کرنا ، سائبر کرائم کو روکنا اور قومی سلامتی کی حفاظت کرنا ہے ، جبکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارم نفرت ، غلط معلومات یا ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیں۔
آن لائن زیادتیوں کو روکنے کے لئے سخت اقدامات متعارف کرانے سے ، PECA ایکٹ 2025 پاکستان میں ایک محفوظ اور زیادہ ذمہ دار آن لائن ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آن لائن مواد کے ضابطے ، نقصان دہ ویب سائٹوں کو روکنے اور آن لائن مجرموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی سمیت قانون کی دفعات کو آن لائن دائرے میں احترام ، رواداری اور ذمہ داری کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
آخر کار ، پیکا ایکٹ 2025 پاکستان میں متوازن اور باقاعدہ آن لائن ماحولیاتی نظام کے قیام کی سمت ایک اہم اقدام کی نمائندگی کرتا ہے ، جو آزادانہ تقریر اور اظہار کو فروغ دیتا ہے جبکہ ملک کی قومی سلامتی ، معاشرتی ہم آہنگی اور انفرادی رازداری کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تاھم جس قدر تحفظات اور خدشات کا تعلق ھے انہیں ممکنہ حد تک ایڈرس کیا جانا چائیے تاکہ ماحول میں ان دیکھے ڈر اور خوف کی فضا کا خاتمہ ھو۔
یہ بھی کہا جاتا ھے کہ اس قانون کی بہ عجلت منظوری میں “اسٹیبلشمنٹ” کا کلیدی اور فائق رول ھے تو قوانین کا اجرا جہاں قانون ساز اداروں کی ذمہ داری ھوتا ھے وھاں قومی سلامتی کے ادارے بھی اس میں اپنا رول یقیناً ادا کرتے ھیں انکے ذرائع وسائل ان خطرات و چیلنجز کی نشان دھی کرنے کے ذمہ دار ھوتے ھیں اسلئے ان الزامات و تحفظات میں زیادہ وزن نہیں ھے بہ نسبت اسکے کہ الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر ھمارے قومی و دفاعی اداروں کی جس قدر تضحیک و تمسخر اڑایا گیا ھے ماضی میں اسکی مثال ملنا مشکل ھے ان اداروں کا تحفظ جہاں انکی ذمہ داری ھے وھاں قانون ساز اداروں سمیت مملکت کے ھر شہری کی ذمہ داری ھے کہ اپنی قومی سلامتی کا پہرہ دے ۔
یہ یقین دلانا حکومت اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کی بنیادی ذمہ داری ھے کہ وہ عوام کو اس امر کا یقین دلائیں کہ قانون کا نفاذ انتقامانہ نہیں بلکہ منصفانہ بنیاد پر ھوگا اور اسکو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رہ کر قومی سلامتی کے متقاضی روبہ عمل لایا جائے گا اور جوں جوں حالات و ماحول معتدل شکل اختیار کرتا نظر آئے گا قانون خود بخود غیر موثر ھوتا چلا جائے گا۔
