امریکہ، قطر اور مصر کی طویل ترین اور اعصاب شکن ڈپلومیسی کے نتیجے میں آخر کار حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ سترہ جنوری سے روبہ عمل ہے اور دونوں فریقین کے درمیان چند قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو چکا ہےاس معاہدے میں جہاں کلیدی کردار قطر کا ہے وہیں جوبائیڈن انتظامیہ کے علاوہ ٹرمپ کے نمائندے نے بھی نیتن یاہو کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا اور نیتن یاہو کو بادل نخواستہ معاہدے پر راضی ہونا پڑا قطر میں اسرائیل اور حماس کے مابین یہ مذاکرات ثالث ممالک کے نمائندوں کے ذریعے بالواسطہ طور پر ہوئے اور عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا اور اس معاہدے کا اعلان قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمن نے کیا اور بتایا کہ یہ تین مراحل پر مشتمل ہے آجکل اس کے پہلے مرحلے پر فریقین جنگی قیدیوں کا تبادلہ کر رہے ہیں جو فروری کے پہلے ہفتے تک جاری رہے گا اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کے لیے حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثوں کی موجودگی میں بات چیت کا دوبارہ آغاز ہو گا
7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اس ہولناک جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی کے تقریباً 1200 سے زائد افراد ھلاک ہوئے ہیں اور ڈھائی سو اسرائیلیوں کو حماس نے قیدی بنا لیا ہے حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اس جنگ میں 47 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور تقریباً 23 لاکھ آبادی کا نوے فیصد بے گھر ہو چکا ہے اور اب جب وہ واپس آرہے ہیں تو ان کے گھر ملبے کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں اور اس ملبے کو ہٹانے ہی میں کئ برس لگ جائیں گے اور تعمیر نو کے لیے کم از کم پندرہ سے بیس سال کا عرصہ درکار ہے اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا جبک اسرائیل بھی سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کر ے گا دونوں طرف سے یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلہ کار کو بخیریت و عافیت سر انجام دینا کوئی آسان کام نہیں ہے غیر جانبدار ثالث کے طور پر کام کرنے والی تنظیم آئی سی آر سی ایسے ماہرین کو اکٹھا کرتی ہے جو تجربہ کار ہوں اور ماضی میں ایسے آپریشنز میں شامل رہے ہوں اس تنظیم کی ترجمان سارہ ڈیوس کا کہنا ہے “یہ کام بظاہر آسان لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بہت پیچیدہ عمل ہے اور اس کام کو سرانجام دینے والے ماہرین کو یرغمالیوں کی بحفاظت منتقلی کے لیے سخت احتیاطی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اس سلسلے میں مکمل منصوبہ بندی اور راز داری سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے محفوظ راستوں کا انتخاب کرنے کے لیے دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ” جنگ زدہ علاقوں میں بے تحاشا تباہ شدہ عمارتوں میں نہ پھٹنے والے بموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو قیدیوں کی سلامتی کو پرخطر بناتے ہیں اس کے علاوہ دونوں اطراف جذبات سے مغلوب لوگوں کی موجودگی بھی کسی حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے یرغمالیوں کی رہائی کی ٹرانسپورٹیشن کے دوران آئی سی آر سی کا طبی عملہ اور بمبوں کو ناکارہ بنانے والے ماہرین بھی قیدیوں کے ساتھ سفر کر تے ہیں ابتدائی طور پر حماس کی جانب سے تین خواتین فوجیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے دوران اسرائیلی حکام اور حماس کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ثالثوں کے ساتھ بھی باقاعدہ رابطے میں رہے جب اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کیا گیا تو وہ ہشاش بشاش تھیں انہیں ایک چھوٹے سے سٹیج پر لایا القسام بریگیڈ کی حفاظت میں لایا گیا اور ان کو تحائف دیے گئےان خواتین نے ہاتھ لہرا کر ہزاروں اکٹھے ہونے والے فلسطینیوں کا شکریہ ادا کیا غزہ انتظامیہ نے انہیں آئی سی آر سی کے عملے کے حوالے کر دیا اور وہ ان کی سفید رنگ کی لینڈ کروزر ز میں سوار ہو کر محفوظ مقام کی طرف روانہ ہو گئیں اور بحفاظت اسرائیل پہنچ گئیں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان کے ساتھ فلسطینی فوجیوں نے بے حد اچھا سلوک کیا جو اسلام میں قیدیوں کے ساتھ کرنے کا حکم ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے قیدیوں کی حالت زار بڑی دگرگوں دکھائی دے رہی تھی خوراک کی کمی کے علاوہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان پر قید کے دوران بے تحاشا تشدد کیا گیا ہے خبر رساں ادارے روئیٹر کے مطابق پہلے مرحلے میں اسرائیلی کے 33 قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی جبکہ اسرائیل کی جانب سے جن چند سو قیدیوں کو چھوڑ جا رہا ہے ان میں بچے، خواتین، معمر افراد، بیمار اور زخمی افراد شامل ہیں حماس کے پاس 94 سے زائد اسرائیلی قیدی ہیں جن میں سے 34 مر چکے ہیں
فروری کے پہلے ہفتے میں اسرائیل اور حماس کے مابین ثالثوں کی موجودگی میں امن منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر مذاکرات کا آغاز ہو گا اس میں دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی حماس رہا کرے گا اور مرنے والوں کی لاشیں بھی حماس اسرائیل کے حوالے کر دے گا غزہ کی تقریباً تمام آبادی کو جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا ہے اب اسرائیل شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے رہائشیوں کو جنوب سے واپس آنے کی اجازت دے چکا ہے مگر واپس آنے والے مظلوم فلسطینیوں کو گھروں کی بجائے ملبے کے ڈھیر ہی ملیں ہیں گاڑیوں میں واپس آنے والے فلسطینیوں کو وسطی غزہ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے رفح کراسنگ کو بیمار اور زخمی افراد کے علاج کے لیے بھی کھولا جا رہا ہے اور اس راستے سے امدادی سامان بھی فلسطین کے لوگوں کو پہنچا یا جائے گا اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعدہی اپنے فوجی غزہ کی پٹی سے ہٹایے گا تا ہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مشرقی اور شمالی اطراف میں 800 میٹر چوڑے بفر زون پر اپنا فوجی کنٹرول جاری رکھے گا
جنگ بندی کے تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کا کام ہے جو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے امت مسلمہ خصوصاً عرب ممالک نے جنگ میں تو فلسطینیوں کو نہتا چھوڑ دیا تھا تو کم از کم غزہ کی تعمیر نو کے لیے ہی دل کھول کر مدد کریں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کیا ہے کہ عرب ممالک فلسطینی لوگوں کو گھر تعمیر کر کے دیں مگر غزہ کی تعمیر نو کے لیے کم از کم 15 سے 20 سال کا عرصہ درکار ہے تاہم ابھی تک جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر عملدرآمد اور مستقل جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے ابھی تک اسرائیل غزہ کا انتظامی کنٹرول نہ تو حماس اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کو دینے پر آمادہ ہے اور جنگ کے بعد غزہ کی سیکورٹی اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا خواہاں ہے ابھی اسرائیل امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو فلسطینی اتھارٹی میں اسرائیل کی تجویز کردہ اصلاحات تک کام کرے گی اس وقت یہ بھی خدشہ ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے بعد مستقل جنگ بندی سے انکار کردے کیونکہ گریڑ اسرائیل کا مذموم صیہونی منصوبہ شام، لبنان اور اردن اور فلسطین کے تمام علاقوں پر قبضے کا ہے حماس اسرائیل سے اپنے تمام جنگی قیدی رہا کروانا چاہ رہا ہے جبکہ اسرائیل 7 اکتوبر میں حملہ کرنے والے جنگجوؤں کو رہا کرنے سے انکاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور تعمیر نو میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اور عرب ممالک کیا کردار ادا کرتے ہیں تاکہ فلسطینی عوام امن و سکون سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوں سکیں
_________________________