اسلام آباد کے نوجوان صحافیوں کی اکثریت بہت مایوس ہے۔ انہیں قوی امید تھی کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے نہایت ’’عجلت‘‘ میں منظور کروائے پیکا قوانین کو صدر آصف علی زرداری لاگو نہیں ہونے دیں گے۔ توثیقی دستخط کرنے کے بجائے انہیں نظرثانی کے لئے پارلیمان کو واپس بھجوادیں گے۔ دریں اثناء صحافیوں کے ایک گروپ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنے تحفظات کو تحریری طورپر بیان کرے۔ ان پر ہمدردانہ غور کرتے ہوئے پیکا قوانین کو ’’نرم اور معقول‘‘ بنادیا جائے گا۔
عرصہ ہوا میری صدر پاکستان آصف علی زرداری تو دور کی بات ہے کسی تیسرے درجے کے سیاستدان سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کئی دہائیاں پرانی وضع کی صحافت کی نذر کرنے کے بعد مگر خود کو سیاستدانوں کی ’’دائی‘‘ سمجھتا ہوں۔ ان سے ملے بغیر ہی ان کی ترجیحات سمجھ آجاتی ہیں۔ اپنے کئی دوستوں کے مقابلے میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی بدولت ان کے سیاسی وارثوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میرا تجربہ مصر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 2007ء میں طویل عرصہ جلاوطنی کے بعد سربازار شہادت نے ان کے خاوند اور بچوں کو بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا ہے۔
روایتی میڈیا جو پہلے فقط اخبارات پر مشتمل ہوتا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہمیشہ نقاد ہی رہا۔ ان کی طویل جدوجہد کے بعد 1988ء میں قائم ہوئی حکومت کو پہلے دن سے ’’نقاد‘‘ پریس کا سامنا رہا۔ محترمہ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ 1988ء کے آخری مہینے میں اسلام آباد میں سارک کانفرنس کا اجلاس ہوگا۔ اس میں شرکت کے لئے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بھی کنفرمیشن بھیج رکھی تھی۔ ضیاء الحق کی فضائی حادثے میں اچانک ہلاکت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو مذکورہ کانفرنس کو پروگرام کے مطابق جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ کانفرنس محترمہ کی پیش قدمی کی وجہ سے منعقد نہیں ہوئی تھی۔
پہلے سے طے ہوئی اس کانفرنس کے انعقاد کو مگر ہماری ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ نے میڈیا کے ذریعے یوں پیش کیا کہ جیسے یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہش پر ہورہی ہے۔ اس میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی شرکت درحقیقت پاکستان اور بھارت کے دو نوجوان وزرائے اعظموں کے دلوں میں ابھرتی اس خواہش کا اظہار ہے کہ ’’کشمیر بھلاکر‘‘ پاک-بھارت تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ جو تاثر پھیلایا گیا اسے ٹھوس ’’مواد‘‘فراہم کرنے کے لئے خبر اڑائی گئی کہ اسلام آباد میں ’’کشمیر ہائوس‘‘ کی راہ دکھانے والے سڑکوں پر لگے اشارے (بورڈ) ہٹادئے گئے ہیں۔ جب یہ خبر گردش میں تھی تو میں نے ایک کیمرہ مین کے ساتھ رات کے گیارہ بجے کے بعد اسلام آباد کے ایک نہیں بلکہ تین مقامات پر ’’کشمیر بورڈ‘‘ کی تصویر اتاری۔ دفتر آکر اس کے بارے میں خبر بنانا چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ ’’بہت دیر ہوگئی ہے‘‘۔ جو خبر میں لایا ہوں اسے دوسرے دن چھاپا جاسکتا ہے۔ دوسرے دن مگر وہ اچانک ’’سسٹم‘‘ سے گم ہوگئی۔ میں اس کے ’’گم‘‘ ہونے کی وجہ سمجھ گیا۔ خاموش رہ کر نوکری بچالی۔
سارک سمٹ میں بھارتی وزیر اعظم سے باہمی ملاقات کے بعد محترمہ نے راجیوگاندھی کو اس امر پر قائل کیا کہ سیاچن گلیشیر پربھارتی افواج کی موجودگی ہر حوالے سے وسائل کا زیاں ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ دونوں ملک اس گلیشیر کو فوجی معرکوں کی نذر نہ کریں۔ بھارتی وزیر اعظم کو یہ خیال پسند آیا۔ تاریخی ریکارڈ مگر گواہ ہے کہ راجیو گاندھی جب وطن لوٹے تو ان کی فوج اور وزارت دفاع نے سیاچن کے بارے میں لچک دکھانے سے انکار کردیا۔
محترمہ کی ذات کو براہ راست کردار کشی کا نشانہ بنانے کے بجائے میڈیا کی توجہ ان کے شوہر آصف علی زرداری کی جانب موڑ دی گئی۔ ان کے خلاف مسلسل کرپشن کہانیوں نے بالآخر اگست 1990ء میں غلام اسحاق خان کو بطورصدر محترمہ کی پہلی حکومت ختم کرنے کا جواز فراہم کیا۔ محترمہ کی حکومت فارغ کرنے کے بعد آصف علی زرداری کو کرپشن کے کئی مقدمات کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔ لطیفہ مگر یہ بھی ہوا کہ آصف علی زرداری کو کرپشن اور برائی کی حتمی علامت ٹھہرانے کے باوجود غلام اسحاق خان نے جب اپریل 1993ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت ختم کرکے عبوری نگران حکومت تشکیل دی تو محترمہ کے شوہر کواس میں وزارت بجلی وتوانائی کی اہم وزارت سونپ دی۔
واقعات کا ہجوم ہے ان سب کا ذکر کروں تو ایک کتاب لکھنا ہوگی۔ ان سب واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ آصف علی زرداری اور ان کے بچے یہ سوچنے میں قطعاََ غلط نہیں کہ میڈیا نے ان کے خاندان کو مسلسل واجب یا ناواجب وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنائے رکھا ہے۔ حق بات یہ بھی ہے کہ اپنے پر تمام تر تنقید کے باوجود پیپلز پارٹی نے 1988ء سے لے کر 2013ء تک آئی تین حکومتوں میں میڈیاکو تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے گریز کیا۔
وقت مگر اب بدل چکا ہے۔ 2025ء میں ’’صحافی‘‘ ریاست کا چوتھا ستون نہیں رہے۔ ان دنوں کا ’’حکومتی بندوبست‘‘ نظر بظاہر ایک خیمہ ہے جو محض ایک ستون یعنی ریاست کے سب سے بڑے ادارے کے سہارے کھڑا ہے۔ ریاست کی یہ خواہش تھی کہ حکومتی بندوبست اپنی اور ریاست کی بقاء کے لئے سوشل میڈیا کو لگام ڈالے۔ وہ لگام تیار ہوگئی تو اس کا استعمال ضروری تھا۔ اس لگام میں کیڑے نکالنا حکومتی بندوبست کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ دورِ حاضر کی سیاست اب ذوالفقار علی بھٹو کا بتایا ’’شاعری اور رومانس کا آمیزہ ‘‘نہیں رہا۔ محض اقتدارکی تمنا ہے اور اقتدار کی تمنا فروری 2024ء کا انتخاب نظر بظاہر جیت جانے کے باوجود پوری نہیں ہوتی۔
صدارت،وزارت عظمیٰ اور دیگر آئینی اور سیاسی اداروں کے حصول کے لئے ’’کہیں اور‘‘ رجوع کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت پسندی سے مگر میرے ساتھیوں نے معاملات پر غور نہیں کیا۔ اس امید پر بیٹھے رہے کہ اپنا ’’ماضی‘‘ ذہن میں رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری پیکا قانون پر توثیقی دستخط نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں انہیں یہ گماں بھی رہا کہ شاید مولانا فضل الرحمن کی ’’سفارش‘‘ ان کے کام آئے گی۔ وقت بدل چکا ہے دوست۔ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت