سردار تنویر الیاس بطور ایک شہری کے ھمارے پڑوسی، عزیز،اور رشتہ دار ھیں جنکا ھمیں احترام بھی ھے اور پاس بھی کہ انہوں نے بڑے مختصر عرصے میں بہ مدد دولت والد اور غیبی امداد ھی سہی وزارت عظمیٰ حاصل کی جو ان سمیت سب گاؤں پڑوس والوں کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں۔بطور سیاست دان و بعد ازاں وزیراعظم ھمارے ان بارے کچھ تحفظات ھیں کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں رھے ھمارے علم اور مشاہدے کے مطابق وہ کسی معروف سیاسی جماعت کے معروف جانے مانے سیاسی کارکن نہیں رھے جسطرح انکے چچا محترم سردار محمد صغیر خان اولا” سٹوڈنٹس پالیٹیکس ثانیاً جموں وکشمیر پیپلز پارٹی ثالثاً مسلم کانفرنس اور چہارم بہ امر مجبوری ھی سہی تحریک انصاف سے منسلک ھوئے لیکن اس پلیٹ فارم سے انکو ممبر اسمبلی بننا نصیب نہ ھوا اور وہ ایک حادثاتی موت کا شکار ھو گئے اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور انکے درجات بلند رکھے، تنویر الیاس خان بارے کوئی ایسی شہادت موجود نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے باقاعدہ وابستہ رھے ھوں لیکن وہ اپنے والد گرامی سردار محمد الیاس خان کے فرزند کے طور سرمایہ کی بنیاد پر سیاست میں مثل پیرا شوٹ آئے اور دیکھتے ھی دیکھتے منصہ شہود پر جلوہ گر ھوگئے مگر ابھی جام عمر ( سیاست، وزارت عظمیٰ) بھرا ھی نہ تھا کہ کف دست ساقی (ناگوار و ناخوشگوار فیصلہ عدالت آزاد جموں وکشمیر عدالت العالیہ) چھلک پڑا کہ نشاں قضا نے مٹا دیا کے مصداق فضا سے زمین پر دڑھم سے آ پڑے۔
عدالتوں کے من پسند و تشریح فیصلوں کے زریعے منتخب نمائندوں کو ایوان اقتدار سے نکالنے کے عمل کو عوام نے پسند کیا نہ آئین و قانون سے وابستہ ارباب بصیرت نے اس عمل کو پزیرائی دی۔ لیکن تنویر الیاس کے اقتدار سے نکلنے کو انکے مخالفین نے
نکنا آدم کا خلد سے سنتے آئے ھیں لیکن
بڑے بے آبرو ھوکر تیرے کوچے سے ھم نکلے
سے تشبیہہ دیتے رھے کہ وہ عدالتوں اور ججز کے کانوں سے دھواں نکالتے نکالتے خود انکی وزارت عظمیٰ کا عدالتوں نے دھواں نکال دیا۔
کہا جاتا ھے سو سنار کی ایک لوھار کی کہ ھمارے ھاں باوجود کمی کمزوری کے عدالتیں، محراب و منبر پر قابض مولوی صاحبان، تھانوں کے تھانیدار اور بندوق بردار صاحبان جبر و اختیار تگڑے پائے جاتے ھیں کہ انکا مقابلہ قدر مشکل اور دشوار ھے۔ سو سردار تنویر الیاس صاحب باوجودیکہ منتخب وزیراعظم تھے انہیں ایوان اقتدار سے دودھ سے مکھی نکالنے مثل فارغ کردیا گیا۔
ھم انکے دکھ میں شریک افسوس ھیں کہ ھمارے نزدیک منتخب نمائندگان کی فراغت کا یہ کوئی معروف اور پسندیدہ عمل نہیں ھے۔
صاحب موصوف نے اقتدار سے نکلنے کے بعد پہلا انکشاف کیا کہ انہوں نے انتخابات 2021 میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو اربوں روپے دئیے جو انتخابی مہم اور امید واروں کو کم اور کپتان صاحب کو زیادہ ادا ھوتے رھے اور “صاحب” حالیہ مکین اڈیالہ جیل قیدی نمبر 804 بے دید و طوطا چشم اتنے تھے کہ رقم لیکر فوری آنکھیں بھی پھیر لیتے تھے۔ خان صاحب کی اس “خوبی اور کمال” کا بے شمار دیگر لوگ بھی ذکر ازکار کرتے رھتے ھیں اور وہ یقیناً اس میں کمال شہرت رکھتے ھیں۔
انکے خلاف حالیہ مقدمات کے فیصلے بھی اسکی تصدیق و توثیق کرتے ھیں۔
اگر اس انکشاف پر ھمارے ارباب بست و کشاد توجہ فرماتے تو آزاد کشمیر کو اسوقت جس صورت حال کا سامنا ھے شاھد یہ صورت درپیش نہ ھوتی۔
سردار تنویر الیاس کا موجودہ بیان کہ چوھدری طارق فاروق پندرہ بیس ھزار ووٹوں سے جیت رھے تھے کہ انہیں انہوں نے یعنی تنویر الیاس صاحب نے زیادتی کرتے ھوئے ھرا کر موجودہ وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر چوھدری انوار الحق کو بطور ممبر اسمبلی جتوایا اور پھر سپیکر بھی بنوایا۔۔۔۔۔ تنویر الیاس کا یہ بیان غلط ھے یا درست یہ الگ موضوع ھے لیکن کیا موجودہ وزیراعظم نے اسکی تردید کی ھے یا نہیں اس بیان کو ھفتہ بھر ھونے کو ھے اخلاقی لحاظ سے وزیراعظم انوار الحق صاحب کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہیے ویسے تحریک انصاف کے پاکستان کے 1918 کے الیکشن ھوں یا آزاد جموں وکشمیر کے 2021 کے الیکشن انکی کریڈیبلیٹی ھر خاص وعام پر طشت از بام ھو چکی ھے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ھمارا جانے ھے۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانا ھے۔
آزاد کشمیر کے انتخابات پر پہلی ضرب کاری تو خود پیپلز پارٹی جو اسوقت آزاد جموں و کشمیر میں شریک اقتدار ھے نے اس بیان کے زریعے لگائی تھی کہ اسوقت کی اسٹیبلشمنٹ نے انکو بقول نبیل گبول 16 نشستیں دینے کا وعدہ کیا ھوا تھا جبکہ انہیں بارہ نشستیں دی گئی ھیں جسکا ازالہ باغ کی ایک نشست بعد میں دیکر کیا گیا تھا۔ اس انجنئیرنگ کی تصدیق اور گواھی اس امر سے بخوبی لگائی جاسکتی ھے کہ تمام تر دھاندلی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں وکشمیر کے مجموعی ووٹس پیپلز پارٹی سے زیادہ ھیں اور اسمبلی میں نشستیں پیپلز پارٹی کو زیادہ ملی ھیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے جیتنے والے امید واروں کو دانستہ طور پر ھرایا گیا جن میں آزاد جموں وکشمیر سمیت مہاجرین کی نشستوں پر کاریگری کی گئی تھی ایک نشست ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر گوجرانولہ سے چوھدری محمد اسمعیل کو واپس ملی جبکہ بقیہ نشستوں پر تا ھنوز فیصلے ھونا باقی ھیں جن میں ایک نشست تو سید شوکت علی شاہ کی بھی ھے جس پر ایک غیر ریاستی شخص کو ممبر آزاد کشمیر اسمبلی منتخب کیا گیا ھے جو اسوقت تک تنخواہ، مراعات و تعیشات وصو ل کر رھا ھے اسی طرح دیگر نشستیں بھی ھیں۔
سردار تنویر الیاس کی گواھی ھمارے نزدیک اگرچہ ایک وعدہ معاف گواہ کی ھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک وہ آج بھی بہ صیغہ سرمایہ بدستور معتبر و موقر حیثیت کے حامل ھیں۔ جنہوں نے اسوقت کی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف پاکستان سے ملکر پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں وکشمیر کا مینڈیٹ چوری کیا اور ھمارے ایک سنئیر راھنما چوھدری طارق فاروق جو اسوقت بھی سنئیر وزیر حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سنئیر نائب صدر تھے اور اسوقت بھی پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں وکشمیر کے سکریٹری جنرل ھیں انکا سیاسی ماضی گواہ ھے کہ وہ بڑے نا مساعد حالات کے باوجود بھی بھمبر سے اپنی سیٹ حاصل کرتے رھے ھیں اور گزشتہ انتخابات میں بھی انکی سیٹ پر شبخوں مارا گیا جسکا انہوں نے نہ صرف اعتراف کیا۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو یقیناً وہ اسوقت ممبر آزاد جموں وکشمیر اسمبلی ھوتے اور موجودہ وزیراعظم چوھدری انوار الحق گھر لنگر انداز ھوتے۔
آزاد جموں وکشمیر میں انتخابات اگرچہ زیادہ دور نہیں لیکن قانون یہ کہتا ھے کہ اگر انتخابات کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ رھتا ھو تو کسی سیٹ کے خالی ھونے پر دوبارہ انتخابات لازمی ھوتے ھیں
یوں تو پے درپے سردار تنویر الیاس کے ان انتخابات بارے انکشافات سے واضع ھوتا ھے کہ وہ سب انجنئیرنگ کا کمال تھے لیکن وزیراعظم کی نشست بارے انکشاف اس امر کا متقاضی ھے کہ وزیراعظم اپنی اس متنازعہ نشست کو فوری خالی کرکے دوبارہ انتخابات کی راہ ھموار کریں۔
اسوقت انہیں یہ فائدہ بھی مل سکتا ھے کہ انہوں نے سرکاری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے زریعے اپنے حلقہ انتخاب کو “فتح” بھی کیا ھوا ھے انکی کامیابی کے امکانات بھی زیادہ ھو سکتے ھیں اور اپنی اس حکمت عملی اور انجنئیرنگ سے ممکن ھے اپنی نشست بھی حاصل کرلیں اور اپنی شہرت و درویشی اور سیاسی کریڈیبلیٹی کو بھی عروج واستحکام دلا پائیں لیکن انہیں آگے بڑھکر سردار تنویر الیاس خان کے بیان کی تکذیب ثابت کرنی چاہیے بصورت دیگر انکے بیان کے صداقت پر مہر تصدیق ثبت ھونا پائی جاتی ھے۔یہ الگ بات ھے کہ مستقبل میں ان پر بطور وعدہ معاف گواہ کیا گزرتی ھے اس کا فیصلہ ممکن ھے کوئی عدالت مجاز کرے یا نہ کرے لیکن وقت کی عدالت ضرور کرے گی کہ جو عوام کی رائے اور ضمیر کو دولت کی بنیاد پر خریداری کا بازار گرم کئے ھوئے ھیں انکا حشر کیا ھوتا ھے لیکن اس میں تنہا تنویر الیاس ھی قصوروار نہیں ھیں اس میں وہ خواص بھی ذمہ دار ھیں جو اس کا حصہ بنتے ھیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو عام آدمی تو بے چارہ سادگی کا ھی شکار رھتا ھے کہ جیتنے والوں کے ووٹس کم اور ھارنے والوں کے ملائے جائیں تو زیادہ ھوتے ھیں لیکن ان کا قصور یہ ھوتا ھے کہ وہ وقت پر اکٹھے نہیں ھوتے اور بعض میں کف افسوس ملتے رھتے ھیں۔