آرمی ایکٹ بہت سخت قانون ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون سویلینز پرلاگو ہوتا ہے کہ نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سینئر رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ بہت سخت قانون ہے اوراس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون سویلینز پرلاگو ہوتا ہے کہ نہیں۔ ایکٹ کے زریعہ کیسے آئینی اختیار لے سکتے ہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا حقیقت میں رولز اپلائی ہوتے ہیں اورملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کوپریزائڈنگ افسر پراعتراض تو نہیں، کیااس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ملزم کونوٹس جاری کئے بغیر اس کی سزامیں اضافہ نہیں ہوسکتا۔

 جبکہ جسٹس سید حسن اظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملزم توپریزائڈنگ افسر کانام بھی نہیں جانتا ہوگا۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرآپ کے گھر پر حملہ ہوتوکیاآپ اپنا کیس خود سن سکتے ہیں۔جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے اعلان کیا ہے کہ آج (بدھ)کو آئینی بینچ پورا دن فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پرسماعت کرے گا۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد آج (بدھ)کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔سپریم کورٹ کے سینئر جج امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملہ پر دائر39نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔

دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد کادلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں کے سامنے فیئر ٹرائل ہوا کہ نہیں میں اس حوالہ سے بتائوں گا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اگر شفاف ٹرائل نہیں توپھر اسے کالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 2-1-dکی حدتک کمانڈنگ آفیسر فوجی اہلکاروں کے حوالہ سے ڈیل کرتا ہے اور وہ سول افراد کوڈیل نہیں کرتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیا کمانڈنگ آفیسر کے لئے ضروری نہیں کہ اسے قانون کاعلم ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کسی سول عدالت میں کیس چل پڑتا ہے اورتحقیقات بھی ہوجاتی ہیں اس کے بعد اگر کیس فوجی عدالت کو منتقل ہوتا ہے توپھر کیا پرانی تحقیقات پر کیس چلے گایانئی تحقیقات ہوں گی۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ نئی تحقیقات ہوں گے، جوکیسز آئیں گے وہ اپنی تحقیقات کریں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایف آئی آرکے اندراج کے بعد تفتیشی افسر کو تحقیقات مارک ہوگئی ہیں تو پھر کیا ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ فردجرم عائد کرنے کی کیا بنیاد ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ فرد جرم سے پہلے تحقیقات ہوتی ہوں گی اورمتعلقہ جگہ کادورہ ہوتا ہوگا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فردجرم کی بنیاد پرتحقیقات ہوتی ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ تحقیقاتی افسر کوکون مقررکرتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد تحقیقات کیسے ہوتی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونا عام سول کیسز میں ایف آئی آر کے اندراج کی طرح ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تابع لانے کے لئے ملزم پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے، جب ٹرائل شروع ہوتا ہے توپھر فرد جرم عائد ہوتی ہے کہ نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ چارج کامطلب الزمات ہیں اور فرد جرم الگ چیز ہے۔ اس دوران کمرہ عدالت میں موجود مدعاعلیہان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے خواجہ حارث کے دلائل پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ رولز اورریگولیشنز کے بغیر ہم دلائل نہیں سمجھ سکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث آرمی ایکٹ کے سیکشنز پڑھ رہے ہیں انہیں نوٹ کرلیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ 105سولینز کاٹرائل ہواکیاان میں سے کوئی بری بھی ہوا۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کوئی بری نہیں ہوا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ شاید پہلے بتایاگیا تھا کہ جن 25افراد کو چھوڑاگیا تھاان میں کچھ لوگ بری بھی ہوئے تھے۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے بتایا کہ 25افراد کی سزائیں کم تھیں اوران کی سزامعاف کرکے رہاکیا گیا تھا،کوئی شخص بری نہیں ہوا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کوئی بری ہواہے توبتادیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ بات ہم مدعاعلیہان کے وکلاء سے بھی پوچھیں گے کہ کوئی بری ہوا کہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرکوئی فوجی اہلکار وردی میں ہوتے ہوئے نجی طور پر کسی کوقتل کردیتا ہے تواس کاسول عدالت اور فوجی عدالت دونوں جگہ ٹرائل ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اگرکوئی ملزم فوجی تحویل میں ہے اوراس کی تحویل سول عدالت بھی مانگتی ہے اور فوجی عدالت تحویل نہیں دیتی توپھر اس کافیصلہ وفاقی حکومت کرے گی۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ عدالت اور ملزمان کی معاونت کے لئے جج ایڈووکیٹ تعینات کیا جاتا ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ جج ایڈووکیٹ کوکس طرح تعینات کیاجاتا ہے کیا اسے صرف حساس ترین کیسز میں ہی مقررکیا جاتاہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیا فوجی عدالت کاپریزائڈنگ افسر فوجی وردی میں بیٹھتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پریزیڈنٹ کون ہوتا ہے، جج ایڈووکیٹ کی کیاذمہ داری ہے کیاوہ عدالت میں بیٹھتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پریزائڈنگ افسر پریزیڈنٹ ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ بہت سخت قانون ہے اوراس پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون سویلینز پرلاگو ہوتا ہے کہ نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ کے گھر پر حملہ ہوتوکیاآپ اپنا کیس خود سن سکتے ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سارے پاکستان کے جج نااہل تونہیں ہوگئے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ملزم پریزائڈنگ افسر پر اعتراض کرسکتاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا حقیقت میں رولز اپلائی ہوتے ہیں اورملزم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کوپریزائڈنگ افسر پراعتراض تو نہیں، کیااس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔

جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ملزم توپریزائڈنگ افسر کانام بھی نہیں جانتا ہوگا۔ اس دوران مداخلت کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ ایک کرنل صاحب نہیں ہوں گے تودوسرے کرنل صاحب ہوں گے۔ کمرہ عدالت میں موجود مدعاعلیہان کے دوسرے وکیل سردار محمد لطیف خان کھوسہ کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث نے کون سافوجی ٹرائل بھگتا ہے، ہم نے توفوجی ٹرائل بھگتا ہے ، وکیلوں سے بھی حلف لیتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں بھی ہرکیس شروع کرنے سے قبل جج حلف لیتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ٹرائل کے تقدس کے لئے فوجی عدالتوں کے تمام اہلکار حلف لیتے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیا پراسیکیوشن کے گواہوں کے بیانات ایڈوانس میں ملزمان کوپڑھنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دیئے جاتے ہیں۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پریذائڈنگ افسر قصوروار یا بے گناہ لکھتا ہے اور اس کی منظوری کنویننگ افسر دیتا ہے اس کے بعد سزاہوتی ہے، سزاسنانے کے لئے ایک الگ سماعت ہوتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کیس میں پروسیجر پر عمل نہ ہوتوملزم ہائی کورٹ میں جاکرکہہ سکتا ہے کہ پروسیجر پرعمل نہیں ہوا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کنویننگ افسر نظر ثانی کے لئے کیس واپس پریزئڈنگ افسر کوبھیج سکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دادرسی کے بہت سے فورم ہیں ہائی کورٹ توبعد میں آتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرآرمی چیف بھی سزاکے خلاف اپیل مستردکردیں توکیا وفاقی حکومت اپیل منظورکرسکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاوکیل کوسنا جاتا ہے۔ اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سنا جاتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اپیل میں جج ایڈووکیٹ اور آتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ملزم کونوٹس جاری کئے بغیر اس کی سزامیںاضافہ نہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فرد جرم کس طریقہ سے عائد کرتے ہیں، اس کے بعد شواہد اکٹھے کئے جاتے ہیں، یہاں شکایت کس کولگائی جاتی ہے۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کورٹ آف انکوارئی کوشکایت کی جاتی ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ تحقیقات کے دوران گواہوں کے بیان ریکارڈ ہوں گے اور ملزم کو ان پر جرح کاحق ہوگا اس کے علاوہ ملزم اپنے حق میں گواہ بھی پیش کرسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ شفاف تحقیقات کے بغیر شفاف ٹرائل نہیں ہوتا ، گواہوں کوسامنے بٹھا کرملزم سے کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے خلاف بیان دے رہا ہے یہ درست ہے یاغلط ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر آزاد باڈی یہ سب کچھ کرتی تو بہتر ہوتا ہمیں نیت پر شک نہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ یہ سارے نان کمشنڈ افسران شہادتیں ریکارڈ کرتے ہیں، کیا نان کمیشنڈ افسر فیصلہ کرے گا کہ ٹرائل ہونا چاہیئے کہ نہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کمانڈنگ افسر کی نگرانی میں الزامات کی سمری تیار ہوتی ہے اس کے بعد ٹرائل شروع ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایکٹ کے زریعہ کیسے آئینی اختیار لے سکتے ہیں۔بینچ نے عدالتی وقت ختم ہونے پر مزید سماعت آج (بدھ)تک ملتوی کردی۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم آج (بدھ)کو پورادن اسی کیس کی سماعت کریں گے۔