اسلام آباد(صباح نیوز)جدید ٹیکنالوجیز اور مالیاتی آلات کی دستیابی ترقی پذیر ممالک کے لئے ڈی کاربونائزیشن کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ ماہرین نے یہ بات پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(SDPI) کے زیر اہتمام پاکستان میں ڈی کاربونائزیشن کا کاروباری مقدمہ کے موضوع پر گول میز مذاکرے میں کہی جس میںپاکستان کے اقتصادی، توانائی، اور ماحولیاتی بحرانوں کے حل کے لئے صنعتی ڈی کاربونائزیشن کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
گول میز مذاکرے کی نظامت کے فرائض ایس ڈی پی آئی کے سینٹر فار انڈسٹریل ڈی کاربونائزیشن کی سربراہ صالحہ قریشی نے انجام دیئے۔مزاکرے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی۔ایس ڈی پی آئی کے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ پاکستان کی معیشت کم پیداواریت، تجارتی خسارے، اور غیر مستحکم توانائی کے اخراجات کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہوں نے عالمی ریگولیٹری میکانزم جیسے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (CBAM) کے ممکنہ خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے روایتی طریقوں کو ترک کر کے پائیدار حل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان سٹیٹ آئل (PSO) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فرخ احمد نے بتایا کہ ان کی تنظیم ڈی کاربونائزیشن کو چیلنج کے بجائے موقع کے طور پر لے رہی ہے۔ انہوں نے پی ایس او کے توانائی کی استعداداور الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی میں اقدامات کو اجاگر کیا جو توانائی کے شعبے کو صاف مستقبل کی طرف لے جانے میں مددگار ہیں۔یونائیٹڈ نیشنز انڈسٹریل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (UNIDO) کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر حماد بشیر نے کہا کہ ڈی کاربونائزیشن کو حقیقی کاروباری مقدمے کے طور پر لینا چاہئے۔ انہوں نے پاکستانی صنعتوں کو درپیش مشکلات کو تسلیم کرتے ہوئے ماحولیات اور اقتصادی حقائق کے مطابق حل تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ساوتھ پول کی مارین ٹان نے ڈی کاربونائزیشن کے عمل میں کاربن مارکیٹس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر حنا اسلم نے صنعتی ڈی کاربونائزیشن کے وسیع تر اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی کم کاربن صنعتوں کی منتقلی کے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسٹیل اور سیمنٹ جیسے شعبوں میں جدید پیداواری طریقوں کے ذریعے اخراج میں کمی کے امکانات کو اجاگر کیا۔عناب محمود نے پاکستان کے موسمیاتی خطرات کے پس منظر میں 2022 کے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے 29 ارب ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمپنیاں ڈی کاربونائزیشن کی حکمت عملی اپنا کر مسابقت میں رہنے اور سی بی اے ایم جیسے عالمی ضوابط کی تعمیل کے قابل بن سکتی ہیں۔
ماہرین نے مالی مشکلات کو پاکستان کے ڈی کاربونائزیشن کے سفر میں بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے توانائی یونٹ کے سربراہ، عبید الرحمن ضیا نے کاربن کیپچر ٹیکنالوجیز کو اخراج میں کمی کے کلیدی حل کے طور پر پیش کیا۔ ایس ڈی پی آئی کے مشیر شکیب الہی نے کہا کہ ڈی کاربونائزیشن پاکستان کے لئے توانائی کے گرڈ اور صنعتی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔گول میز مذاکرے نے قانون سازی اور مارکیٹ پر مبنی ترغیبات کے امتزاج کی اہمیت کو اجاگر کیا تاکہ پاکستان کم کاربن معیشت کی جانب منتقل ہو سکے اور عالمی مارکیٹ میں اپنی صنعتی مسابقت کو محفوظ رکھ سکے۔