06 نومبر1947 :انسانیت کا قتل ،،، تحریر :محمد شہباز

06 نومبر1947جو یوم شہدا جموں کے نام سے منسوب ہے،انسانیت اور انسانی اقدار کو شرمانے ولا سانحہ ہے اور بلاشبہ اڑھائی لاکھ سے زائد لٹے پٹے، نہتے اور بے سرو سامان مسلمان خواتین،بچوں،نوجوانوں اور بزرگوں کا خون بہانے والے انسان نہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر اور گئے گزرے تھے۔دریائے توی کئی روز تک انسانی خون سے بھر چکا تھا اور پانی کے بجائے انسانی خون ہی بہہ رہا تھا۔یہ تقسیم برصغیر کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر انسانی معاشرے میں قتل عام یا جس سے عرف عام میں نسل کشی کہا جاتا ہے ،رونما ہوچکی ہے۔اڑھائی لاکھ کشمیری مسلمانوں کی اس نسل کشی نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ان نظریات،افکار اور دور اندیشی کو درست ثابت کیا ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ نظریات ،افکار اور نقطہ نظر کے مالک ہیں اور وہ ایک دوسرے کیساتھ زندگی کے معاملات میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ قائد اعظم کو ہندو بنیے کی اسی ذہنت نے ایک الگ اور آزاد مملکت کا تصور پیش کرنے اور بالاخر اس سے پائیہ تکمیل تک پہنچانے پر مجبور کیا ۔جموں میں کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کو آج تک کوئی جھٹلا نہ سکا کیونکہ آزاد مبصرین اور خود انصاف پرور ہندو مورخین نے اس قتل عام پر اپنے لب سی لینے کے بجائے مجرموں کی نشاندہی کرکے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کیا ،جن میں صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے انجہانی وید بھسین سرفہرست ہیں،جو اس وقت نوجوان تھے اور اس نسل کشی کا آنکھوں دیکھا مشاہدہ خود بیان کیا ۔انجہانی وید بھسین لکھتے ہیں کہ
اکتوبر 1947کے آخری ایام اورنومبر کے پہلے ہفتے میں بالعموم 5،4اور6نومبر کو بالخصوص جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بربریت کا ایسا ننگا ناچ کیا گیا جس کی انسانی تاریخ میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ صرف تین دنوں کے مختصر ایام میں اڑھائی لاکھ مسلم خواتین،بچے،نوجوان اور بزرگ بے دردی سے قتل کئے گئے۔ وید بھسین رقم طراز ہیں کہ1947 کے ان ایام میں صوبہ جموں کے مسلمانوں کو ڈوگرہ ہری سنگھ کی انتظامیہ کی ہدایت پر جموں پولیس لائنز میں جمع ہونے کیلئے کیا گیا،تاکہ انہیں بسوں،لاریوں اور ٹرکوں کے ذریعے پاکستان بحفاظت پہنچایا جائے۔یہ اصل میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا پہلے سے منظم منصوبہ تھا،جس پر ٹھیک ٹھیک عملدرآمد کیا گیا۔ یہ سادہ اور عام فہم زبان میں ایک لالچ تھی ،جس کا مسلمان شکار ہوئے تاکہ ایک ہی مقام یا جگہ پر ان کا خون بہانے میں آسانی ہوسکے۔جموں پولیس لائنز شہر کے مضافات میں واقع تھی اور نسل کشی کے اس منصوبے کو عملانے کیلئے اس سے شاید ہی بڑی اور آئیڈل کوئی اور جگہ ہوسکتی تھی ۔پھر جموں پولیس لائنز میں جو ننگا ناچ کیا گیا،تاریخ اس سے کسی صورت بھلا نہیں سکتی۔ جیسے کہ آزاد اور غیر جانبدار مبصرین کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے کہ اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ اس ظالمانہ اور سفاکانہ فعل میں ہندو انتہا پسندوں کیساتھ ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے سپاہیوں،سکھوں اور بھارتی افواج نے بھی اپنے لیے ذلت و رسوائی کا سامان کیا۔نسل کشی کے اس اقدام کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ جموں کے مسلمانوں کا مکمل صفایا کیا جائے۔یہ اسی ظلم و بربریت کا نتیجہ تھا کہ پورے صوبہ جموں سے 20 لاکھ سے زائد لوگ پاکستان کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
قتل عام کیساتھ ساتھ مسلم خواتین کو اغوا کرکے ان کی عزت و عصمت تار تار کی گئی ،اس درندگی سے بچنے کیلئے بہت ساری مسلم خواتین دریائے توی میں کود گئیں ،جن میں ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے سرکردہ مسلم رہنما چوہدری غلام عباس جو بعدازاں رئیس آلاحرار کہلائے ،کے گھر کی خواتین بھی شامل تھیں،جن میں ان کی لخت جگر بیٹی بھی شامل ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کیلئے جدوجہد کرنا کسقدر جانگسل ہے۔جو لوگ آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں ،انہیں اور ان کی نسلوں کو اس کا عشر عشیر بھی اندازہ نہیں ہے کہ آزاد فضائوں میں سانس لینے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔وکی پیڈیا 06 نومبر 1947 میں مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق تاریخ کی درستگی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ قتل عام انتہا پسند ہندووں اور سکھوں نے کیا، جن کی مدد مہاراجہ ہری سنگھ کے سپاہیوں نے کی تھی۔راشٹریہ سویم سیوک سنگھ RSS کے غنڈوں نے نسل کشی کی منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے میں کلیدی کردار ادا کرکے مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں راستہ ہموار کیا ۔
یاد رہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے Princely States شاہی ریاستوں پر اپنا تسلط ختم کر دیا، جن کے پاس بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کے آپشن رہ گئے تھے۔ریاست جموں و کشمیر چونکہ ایک مسلم اکثریتی ریاست کی حامل تھی،البتہ حکمران ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ تھا،کا جھکائو بھارت کی جانب تھا۔ مسلم کانفرنس ، جو 19 جولائی 1947 میں پاکستان کیساتھ الحاق کے حق میں قرارداد منظور کرچکی تھی اور وہ صوبہ جموں کے مسلمانوں میں مقبول جماعت تھی۔ اس کا آل انڈیا مسلم لیگ کیساتھ گہرا لگائو اور اتحاد بھی تھا،لہذا ریاستی عوام کی خواہش جو کہ تقسیم برصغیر کے اصولوں کے عین مطابق پاکستان کیساتھ الحاق یا وابستگی تھی،لیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاستی عوام کی خواہش کو پس پشت اور بلڈوز کرتے ہوئے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا ،جو کہ تقسیم کے اصولوں کے سراسر منافی تھا۔جو کہ بعدازاں حیدر آباد اور جونا گڑھ کے معاملے میں نہ صرف غلط ثابت ہوا ،بلکہ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے حیدر آباد اور جونا گڑھ سے متعلق تقسیم برصغیر کے فیصلے کی مٹی بھی پلید کرنے کا باعث بنا ۔اگر چہ بعض مبصرین مہاراجہ ہری سنگھ کو لبرل اور غیر فرقہ پرست کے طور پر تصور خیال کرتے تھے۔میجر جنرل ہنری لارنس اسکاٹ، چیف آف اسٹاف اور رچرڈ پاول انسپکٹر جنرل آف پولیس افواج اور پولیس دونوں کی سربراہی یہی برطانوی افسران کر رہے تھے۔لیکن ان کے عہدہ چھوڑنے کے فورا بعدان کی جگہ ‘ہندو آفیسراں’ نے لے لی۔ان اہم آئینی عہدوں پر ہندو آفیسران کی تعیناتی نے مبصرین کی آرا ء کو غلط ثابت کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ لبرل اور غیر فرقہ پرست پس منظر کے حامل تھے۔معروف اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق، جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے جموں میں اپنی مسلم رعایا کے خلاف پونچھ کی بغاوت کا بدلہ لیا جو بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔جبکہ کچھ اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ہری سنگھ اور اس کی انتظامیہ کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی آبادی کو ختم کر کے علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنا تھا تاکہ خطے میں ہندووں کی اکثریت کو یقینی بنایا جا سکے۔مہاراجہ ہری سنگھ کی انتظامیہ نے ریاستی افواج میں شامل بہت سے مسلمان فوجیوں کو غیر فعال کیا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمان پولیس افسروں کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا۔جموں شہر کوسرکاری سطح پر کرفیو میں لیا گیا ۔ بہت سے گجر مرد اور خواتین جو آس پاس کے دیہاتوں سے جموں شہر کو دودھ سپلائی کرتے تھے، مبینہ طور پر راستے میں قتل کر دیا گیا۔جموں کا رام نگر گجر مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ جموں شہر کے مسلم علاقوں تالاب کھٹکان اور محلہ استاد میں مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا گیا اور ان کا پانی اور خوراک کی سپلائی بند کر دی گئی۔اسکالر الیاس چٹھہ اور جموں کے صحافی وید بھسین نے جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کی مسلح افواج کی طرف سے امن و امان کی خرابی کو خطے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
6 نومبر1947 مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔جب77 برس قبل دوسری جنگ عظیم کے بعد صوبہ جموں میں نسل کشی کے نام پر 25,0000 سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔یہ سلسلہ 6نومبر 1947سے لیکر آج تک جاری ہے اوربھارت کے ہاتھوں پانچ لاکھ سے زائد فرزندانِ وطن جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں سینکڑوں بستیاں اور بازار تاخت و تاراج کیے جاچکے ہیں۔ریاست کے طول وعرض میں 6 ہزار گمنام قبریں دریافت ہوچکی ہیں،جن میں دسیوں ہزارمادر وطن کے فرزند آسودہ خاک سورہے ہیں اور ظلم و جبر کا یہ سلسلہ آج بھی ریاست کے چپے چپے پر جاری ہے۔پھر رہی سہی کسر5 اگست 2019 میں دنیا کے بدترین فسطائی مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370اور35 اے کو ختم کرکے پوری کی۔ان دونوں دفعات کے تحت ریاست جموں و کشمیر سے باہر کسی غیر ریاستی باشندے کو علاقے میں زمین اور جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں تھی،لیکن اب ریاست کا حلیہ ہی بگاڑکر رکھ دیا گیا ہے۔پہلے انتخابی حلقہ بندیوں کے نام پر صوبہ جموں کو زیادہ سیٹوں سے نوازا گیا۔مقصد اہل کشمیر پر ہندو وزیر اعلی مسلط کرنا تھا،مگر یہ تدبیر بھی کشمیری عوام نے ناکام بنا دی۔پھر نت نئے قوانین کے ذریعے لاکھوں غیر ریاستی افراد کیلئے ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا گیا۔کشمیری عوام کی زمینوں اور رہائشی مکانات کو آئے روز سیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ،جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ریاست میں بھارتیوں کیلئے نوکریوں کے دروازے تھوک کے بھائو کھول دیئے گئے۔اہم انتظامی عہدوں پر بھارت سے لائے گئے ہندو آفیسران مسلط کیے گئے۔مسلمان کشمیری سرکاری ملازمین کو آئے روز ان کی نوکریوں سے برطرف کیا جاتا ہے۔لیفٹینٹ گورنر کو تمام اختیارات تفویض کیے گئے ۔جس کے بعد ایک عام عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات جموں قتل عام کے قاتلانہ ارادے کا ایک افسوسناک تسلسل ہے کیونکہ ان کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔جو مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جنیوا کنونش کی نہ صرف صریحا خلاف ہیں بلکہ یہ اقدامات چشم کشا بھی ہیں کہ عالمی سطح پر اختیار کیے گئے قوانین کی بھارتی حکمرانوں کے سامنے اب کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے اور یہی بھارتی اقدامات دنیا کی تباہی کی نشاندہی کی عکاس ہیں۔ شہدا جموں سے لیکر آج کے دن تک دی جانے والی قربانیان اہل کشمیر سے تقاضہ کرتی ہیں کہ ان قربانیوں کو رائیگان نہیں بلکہ ا ن کی حفاظت ناگزیر ہے۔ ظلم اور ظالم کا خاتمہ ضرور ہوگا اور جموں و کشمیر کے عوام شہدا کے اس خون کے صدقے آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوتا دیکھیں گے۔کیونکہ یہی تاریخ کا سبق ہے۔