چوہدری قدرت اللہ مرحوم نے کلفت میں بسر کی لیکن ایک جمال و جلال کے ساتھ۔ایک روزہ دار کی طرح زندگی بتا دی۔ مرقد پہ نور برستا رہے۔ ہر موت اپنے ساتھ دکھ لاتی ہے ۔ کچھ ایسے بھی مگر اٹھتے ہیں کہ دنیا خالی نظر آنے لگتی ہے۔گرنے کو سبھی شجر گرتے ہیں مگر برگد گرتا ہے تو قلق سوا ہوتاہے۔ چوہدری قدرت اللہ کی وفات بہت گہری اداسی اپنے ساتھ لائی ہے۔وہ جو پنجابی شاعری کے آخری جادوگر میاں محمد بخش نے کہا تھا: شام کے بغیر شام۔ سہ پہر کو جیسے سورج ڈوب جائے۔ ہر چیز فنا ہوتی ہے۔ ہر آدمی ایک دن مٹی کو سونپا جاتا ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ فوج درفوج میدانِ حشر میں لوگ آخر کارجمع کر دیے جائیں گے۔ اعمال نامے ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں تھما دیے جائیں گے۔ صابر وشاکر، متین اور باوقار‘ پیکر تحمل اور صداقت شعار چوہدری قدرت اللہ کے بارے میں دعا اور امید یہ ہے کہ ان کا نامہ ء اعمال دائیں ہاتھ میں ہوگا۔ انشاء اللہ وہ عرشِ بریں کے ٹھنڈے سائے میں ہوں گے۔ اللہ کے آخری رسول ؐ ایک دعا پڑھا کرتے اور تعلیم کیا کرتے: اے اللہ مجھے صبر کرنے والا بنا، اے اللہ مجھے شکر کرنے والا بنا، اے پروردگار مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا اور دوسروں کی نگاہ میں بڑا کر دے۔ چوہدری صاحب مرحوم ایسے ہی تھے۔نمودِ ذات سے بے نیاز۔باکمال نیوز ایڈیٹر اور ڈھنگ کے کالم نگار۔ عجیب بات یہ ہے کہ نمایاں ہونے کی ان میں کبھی کوئی آرزو نہ تھی۔ چوہدری کا لاحقہ معلوم نہیں، کس نے ان کے ساتھ چپکادیا ورنہ وہ تو محض قدرت اللہ تھے۔ دھیمے مزاج کے خاکسار۔ ربع صدی ہوتی ہے، ایک دن اکھٹے ہم گھومتے پھرتے رہے۔ شام کو میرے گھر پہنچے۔ کھانے کا وقت تھا۔ بولے: کوئی خاص رغبت نہیں۔ حیرت ہوئی، کئی گھنٹے پیدل چلنے کے باوجود صحت مند آدمی کوبھوک کیوں نہیں؟اسے تو بے تاب ہونا چاہئیے۔ شریک ہو گئے مگر اس طرح جیسے کوئی اشتہا نہ ہو۔ قدآور آدمی تھے مگر تھوڑا ہی کھایا۔ اکثر کے برعکس اپنے بارے میں گفتگو کے شائق نہ تھے۔ بہت کریدا تو کہا:مدتوں سے عالم یہی ہے۔ کبھی کھالیا، کبھی بھوکے رہے۔ ایک زمانہ اس طرح بیت گیا ہے۔ اب عادت سی ہو گئی ہے۔ اچانک ایک دن بولے: میرا حال بھی عجیب ہے۔ گھر والوں سے فرمائش کی کہ فلاں سبزی پکائی جائے۔ لائی گئی تو میں نے معذرت کر لی۔ اہلِ خانہ پریشان کہ بات کیا ہے۔ کہا: بس اب جی نہیں چاہتا۔ برصغیر میں فارسی کے آخری عظیم شاعر، علامہ اقبال کے دوستوں میں سے ایک ‘مولانا گرامی اس پر یادآئے، ہفتوں اور مہینوں جو ان کے ہاں قیام کیا کرتے‘ مصرعے کی بنت پر اقبالؔ کو مشورہ کرنا ہوتا تو ان سے کرتے۔ ایک بار اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ سے اقبالؔ نے کہا تھا: مولانا گرامی کو دیکھ لو۔آنے والی نسلوں کے سامنے اس پر فخر کر سکو گے۔ علامہ کے خادم علی بخش سے ایک دن مولانا گرامی نے کہا: ارے بھائی کھانے میں مہمان کے ذوق کا بھی خیال چاہئیے۔ پھر گوبھی گوشت کی فرمائش کی۔ شام کو علی بخش ٹرے میں کھانا سجائے ان کے کمرے میں داخل ہوا تو پوچھا: کیا لائے ہو۔ بشاشت سے اس نے کہا: جی گوبھی گوشت۔ مولانا کے ماتھے پر شکنیں۔ بولے: علی بخش یہ کیا مذاق ہے۔ صبح گوبھی گوشت، دوپہر گوبھی گوشت، رات گوبھی گوشت۔ علی بخش پریشان۔ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ہنسے اور کہا: جلدی سے کچھ اور انہیں پیش کرو۔ پھر بتاتا ہوں کہ سبب کیا ہے۔ علی بخش ان پڑھ مگر اہلِ علم کی صحبت میں جیا۔ علامہ کے نائبین میں سے ایک چوہدری محمد حسین سے چونچ لڑایا کرتا۔ تجسس بہت تھا۔اصرار کیا تو علامہ نے اسے بتایا: بعض لوگوں کی ذہنی کیفیت عجیب ہوتی ہے۔ قوت متخیلہ ایسی بھرپور کہ عالمِ خواب میں جس چیز کا خواب دیکھتے ہیں، عملاً گویا اس سے دوچار ہوتے ہیں۔ تم سے فرمائش کرنے کے بعد معلوم نہیں، تصور کی دنیا میں کتنی بار گوبھی گوشت سے لطف اندوز ہو ئے، حتیٰ کہ بیزار ہو گئے۔ چوہدری صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ معلوم نہیں، کب اور کیسے علائقِ دنیا سے بے نیاز ہوگئے اور ہوتے چلے گئے۔ ایک قادرالکلام صحافی ہونے کے باوجود شہرت کی جس شخص میں آرزو باقی نہ رہی ،د رویش نہیں تو وہ اور کیا تھا۔ درویشوں کے سروں پر کیا سرخاب کے پر ہوتے ہیں۔ دنیا کے باب میں جو غنی ہو جائے، وہی درویش ہوتا ہے۔ اہلِ فقر کی ایک اور علامت یہ ہے کہ کسی چیز کے وہ مدعی نہیں ہوتے۔ کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ کبھی اپنا کوئی کارنامہ بیان نہیں کرتے۔ حرفِ تحسین کے طالب نہیں ہوتے۔ لوگ انہیں سادہ لوح سمجھتے ہیں؛حالانکہ وہی سب سے دانا ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ خودداری اور آبرو مندی کی حیات آسائش کی طلب سے افضل ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا:غنی وہ ہے جس کا دل غنی ہو۔ شیخِ ہجویرؒ کے گرامی قدر استاد ابوالحسن ختلی ؒ کا قول بار بار دہرانے کو جی چاہتا ہے ’’یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا۔‘‘ ریاکاروں اور دعویداروں کی بات نہیں۔ سچے صوفیوں کے گرد بھی کثرت سے اہلِ دنیا ہی کو دیکھا۔ عصرِ رواں کے عارف سے ایک بار سوال کیا: لوگ آپ کے پاس کس لیے آتے ہیں۔ بولے: نوے فیصد کارِ دنیا کے لیے۔ پائنتی پر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے بے ساختہ کہا: میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ دل نے گواہی دی: اس آدمی میں حسنِ کردار کی کوئی روشنی ضرور ہے ورنہ وہ نارسائی کا اعتراف کیوں کرتا۔اہلِ صفا کی صحبت معجزے کر دکھاتی ہے مگر گاہے ان کے ہاں میرے جیسے ادنیٰ لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کچھ دوسرے ایسے عجیب لوگ ہوتے ہیں کہ کبھی کسی استاد سے فیض پایا، نہ اہلِ علم کے ملفوظات سے۔ سلیم الفطرت مگر ایسے کہ ساری زندگی سچائی، سادگی اور صبر میں بتا دیتے ہیں۔ میجر عامر کے ایک بزرگ ملازم کے بارے میں ایک بار ان سے پوچھا تھا: اس آدمی کے چلن میں ایساحیرت انگیز اجالاکہاں سے آگیا۔ نمازِ فجر سے نمازِ عشا تک کام میں جتا رہنے والا آدمی، نوجوانوں سے زیادہ ولولہ، چٹا ان پڑھ مگر ایسی اخلاقی استواری کہ گاہے نامور علما بھی اس سے محروم۔ ایسا لگتا تھا کہ براہِ راست اس پہ ستاروں سے نور برسا ہے۔ تعریفی کلما ت سے میجر صاحب نے بڑے میاں کو آگاہ کیا تو ایک لمحے کو شرمائے اور پھر کام میں مگن ہو گئے۔ سچ کی طرح سادہ اور اجلاآدمی۔ چوہدری قدرت اللہ مرحوم نے کلفت میں بسر کی لیکن ایک جمال و جلال کے ساتھ۔ایک روزہ دار کی طرح زندگی بتا دی۔ مرقد پہ نور برستا رہے۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز