ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہرانے کی جستجو کر رہی تھی۔ انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ انکو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ا ن کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔ بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ویمل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906کی اس بھارتی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔ بالونے اس میچ میں آٹھ وکٹ لئے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔ احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ انکی ذات کی وجہ سے ان کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھااور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔ یورپ میں اپنی بالنگ کا لوہا منوا کر واپسی پر ڈپریسڈ کلاس ایسوسی ایشن نے بمبئی میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا، جس میں دلت رہنما اور ڈاکٹر بی آر۔ امبیڈکر نے تقریر کی۔ مورخ رام چندر گوہا نے اپنی کتاب ”اے کارنر آف فارن فیلڈ” میں ان کا موازنہ امریکی سپر اسپورٹس اسٹارز جیکی رابنسن اور محمد علی جیسے شہری آزادیوں کی تحریک کے ہیرو سے کیا ہے۔ بھارت کے اس عظیم کرکٹر پلوانکر بلو کو ان کی دلت شناخت کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ان کے نام پر کوئی یادگار، مجسمہ یا ٹورنامنٹ ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔ جیمز ایسٹل نے اپنی کتاب ”دی گریٹ تماشا: کرکٹ، کرپشن، اینڈ دی سپیکٹاکولر ماڈرن انڈیا” نے ایک اور دلت کھلاڑی وڈا گنیش کا ذکر کیا ہے۔ گنیش نے بھی 1990 کی دہائی میں بھارت کے لیے چار ٹیسٹ کھیلے۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم کرکٹر، جن کا تعلق ماہی گیر برادری سے تھا، ونود کامبلی تھے، جو کرکٹ لیجنڈ سچن ٹنڈولکر کے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کو رماکانت اچریکر نے تربیت دی تھی۔ کامبلی کے بارے میں، اچریکر کا کہنا تھا کہ وہ تندولکر سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان دونوں نے ہیرس شیلڈ اسکول ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ شراکت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کامبلی نے 349 بنائے اور 6 وکٹیں حاصل کیں، اور ٹنڈولکر نے 326 رنز بنائے۔ ٹنڈولکر نے ایک سال بعد بمبئی رنجی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا اور کامبلی نے اس کے ایک سال بعد ڈیبیو کیا۔ ٹنڈولکر نے 1991 میں اور کامبلی نے 1993 میں بھارت کے لیے کھیل کی شروعات کی۔ کامبلی نے اپنے پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریوں سمیت چار سنچریاں بنائیں۔ اپنے 17 ٹیسٹوں کے بعد، کامبلی کی ویسٹ انڈیز کے خلاف بری سیریز تھی اور اسے ڈراپ کر دیا گیا۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں کامبلی نے کہا کہ انہیں ان کی ذات اور رنگت کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا۔ سچن ٹینڈولکر کے اس ساتھی بلے باز ونود کامبلی نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ۔مسلسل نظر انداز کرنے پر2000میں انہوں نے کرکٹ کو الوداع کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈریسنگ روم میں ان کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اعلی ذات کے ٹندولکر کی کامیابی اور نچلی ذات کے کامبلی کی تنزلی ، بھارتی کرکٹ اور بھارت کے سماجی نظام کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ بیس ویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجوں کی جگہ سنبھالی او سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے۔ ایک کھلاڑی کیلئے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے، اس کو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کیلئے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔ دلتوں کے برعکس بھارتی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتا بہتر رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔ سوربھ گنگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح کم و بیش تیس مسلمان کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا ہے ئ، جن میں اکثریت باؤلروں کی ہے ۔ ا سکی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کیلئے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیںہوتی ہے۔ نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کیلئے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کیلئے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کیلئے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازما سیاہ فام افریقی ہونے چا ہیئں۔ سفید فام کھلاڑیوں نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اسمیں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہئے۔ مایہ نا ز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اسکی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی ا س پر بھی اتار چڑھاؤ آتے گئے۔اس بار بھی فائنل میں بھارت کا کانٹے کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جو ایک کثیر جہتی کلچر اور سماج کی نمائیندگی کر رہی تھی، نہ کی محض ایک قلیل اشرافیہ طبقہ کی۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز