یہ 1977ء کے ابتدائی ایام تھے ذوالفقارعلی بھٹو وزیراعظم تھے اور احمد فراز وفاقی وزارتِ اطلاعات کے ایک افسر تھے۔احمد فراز کو بھٹو حکومت کے خاتمے سے بہت پہلے مارشل لا کے بوٹوں کی آواز سنائی دینے لگی تھی اور وہ اپنے اشعار کے ذریعے جمہوریت کو درپیش خطرات کا اظہار بھی کرنے لگے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق کے حکم پر احمد فراز کو آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔عام خیال یہ تھا کہ آرمی چیف نے احمد فراز کی گرفتاری کیلئے وزیر اعظم بھٹو سے باقاعدہ کلیئرنس لی تھی لیکن آرمی ایکٹ کے تحت ان کی شاعری کے خلاف مقدمہ بنانا مشکل تھا لہٰذا انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیکر گرفتار تو کر لیا گیا لیکن مقدمہ بنانے کا کام گرفتاری کے بعد شروع ہوا۔احمد فراز کی گرفتاری کے باعث پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں میں کھلبلی مچ گئی ۔کشور ناہید بھاگ کر بیگم نصرت بھٹو کے پاس پہنچیں اور درخواست کی کہ وہ احمد فراز کی رہائی کیلئے وزیر اعظم سے بات کریں۔دوسری طرف کچھ اخبارات میں احمد فراز کی کردار کشی شروع ہو گئی اور ان پر توہین رسالت کے الزامات لگائے جانے لگے۔اس صورتحال میں ان کے ایک شاعر دوست سیف الدین سیف نے عابد حسن منٹو کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی جس میں کہا گیا کہ احمد فراز کو بغیر کسی مقدمے کے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس افضل ظلہ نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں احمد فراز کو کس نے گرفتار کیا ہے ؟ وکیل نے صاف بتایا کہ احمد فراز کو فوجی حکام نے گرفتار کیا ہے اور انہیں آزاد کشمیر کے مانسر کیمپ میں رکھا گیا ہے ۔جج صاحب نے متعلقہ فوجی حکام کو عدالت میں طلب کرلیا۔ایک فوجی افسر نے عدالت میں احمد فراز کی گرفتاری کی تصدیق کی۔عدالت نے پوچھا کہ احمد فراز کے خلاف آپ کے پاس کون سا ثبوت ہے؟ جواب دیا گیا کہ ثبوت تلاش کیا جا رہا ہے عدالت نے احمد فراز کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت کے حکم پر احمد فراز رہا ہو گئے تو جنرل ضیا بڑے سیخ پا ہوئے انہوں نے اس فوجی افسر کو طلب کر لیا جس نے عدالت میں احمد فراز کی گرفتاری کا اعتراف کیا تھا۔آرمی چیف نے اپنے افسر سے پوچھا کہ اگر تم نے گرفتاری کی تصدیق کر بھی دی تھی تو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ ابھی تمہارے پاس احمد فراز کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ؟ فوجی افسر نے اپنے باس کو کہا کہ اگر میں کہتا کہ ثبوت موجود ہے تو عدالت کہتی کہ کیا ثبوت ہے تو پھر میں کیا کرتا ؟ دوسری طرف وزیر اعظم بھٹو نے احمد فراز کو بتایا کہ اس دفعہ تمہیں بچا لیا ہے آئندہ نہیں بچا سکوں گا۔ کچھ مہینوں کے بعد جنرل ضیاالحق نے اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کا دھڑن تختہ کر دیا۔
29مئی 2024ء کی صبح میں اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا جہاں آزاد کشمیر کے ایک شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کیلئے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں سماعت تھی دوہفتے قبل احمد فرہاد کو اسلام آباد سے نامعلوم افراد ان کے گھر کے باہر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔احمد فرہاد کی اہلیہ سیدہ عروج زینب نے ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے شوہر کی بازیابی کیلئے درخواست دائر کی ۔اسلام آباد پولیس نے احمد فرہاد کی گرفتاری سے انکار کر دیا۔عدالت نے سیکرٹری دفاع سمیت کچھ خفیہ اداروں کے افسران کی جواب طلبی کر لی جس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سیخ پا ہوگئے۔ اس دوران عدالت نے مجھے اپنا معاون مقرر کر دیا اور پوچھا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی رپورٹنگ کے مثبت اور منفی پہلو کون سے ہیں اور کیا قانون ان مقدمات کی رپورٹنگ سے روکتا ہے یا نہیں ؟عدالتی معاون مقرر ہونے کے بعد ہر سماعت میں میری موجودگی لازمی تھی۔بدھ کی صبح میں عدالت پہنچا تو دو ریٹائرڈ فوجی افسران نے مجھے احمد فرہاد کیس سمیت چار مختلف مقدمات کی تفصیل فراہم کی جس میں حاضر سروس فوجی افسران عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ یہ دونوں ریٹائرڈ فوجی افسران بتا رہے تھے کہ جس طرح فوج پاکستان کا ایک بہت اہم ادارہ ہے اسی طرح عدلیہ بھی پاکستان کا ایک اہم ادارہ ہے ۔اگر پاکستان کا کوئی شہری لاپتہ ہو جائے تو ان دونوں اداروں کو آپس میں لڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے کیونکہ قانون بھی یہی کہتا ہے۔ انہوں نے مجھے آرمی ایکٹ کی ان دفعات سے آگاہ کیا جو فوج کو پولیس سے تعاون کا پابند بناتی ہیں اور ماضی قریب کے عدالتی فیصلوں کے حوالے بتائے جن میں فوج نے عدلیہ کےساتھ بھرپور تعاون کیا۔ میں دعا کر رہا تھا کہ آج اٹارنی جنرل احمد فرہاد کا پتہ بتا دیں اور ریاستی اداروں میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا نہ ہو ۔گیارہ بجے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل کے ساتھ ساتھ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی عدالت میں موجود تھے ۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ احمد فرہاد کے خلاف آج ہی ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور وہ آزاد کشمیر کے علاقے دھیر کوٹ کی جیل میں بند ہے ۔یہ سنتے ہی جج صاحب سمیت ہم سب کے چہروں پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔جج صاحب نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ یہ کام دو ہفتے پہلے کر دیتے تو معاملہ ختم ہو جاتا۔ میں نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ نے جبری گمشدگی کے خاتمے کیلئے 2022ء میں ایک بل پیش کیا تھا اگر اس بل پر عملدرآمد ہو جاتا تو آج ہم آپ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے ۔احمد فرہاد کے اہلخانہ کا ان سے رابطہ قائم ہو چکا ہے اور اب وہ لاپتہ نہیں رہے ۔احمد فرہاد کی بازیابی کا کریڈٹ جسٹس محسن اختر کیانی کو جاتا ہے جنہوں نے بڑی جرات، حوصلے اور تدبر سے ایک لاپتہ کشمیری شاعر کو اس کے خاندان سے دوبارہ ملوایا ہے ۔اس سلسلے میں احمد فرہاد کی اہلیہ اور انکی وکیل ایمان مزاری بھی داد کی مستحق ہیں جن پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ بیان دیدیں کہ احمد فرہاد اپنی مرضی سے غائب ہو گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔بہر کیف جب احمد فرہاد کی اہلیہ دھیرکوٹ پہنچیں تو بتایا گیا کہ وہ مظفرآباد پولیس کے پاس ہیں تو یہ باہمت خاتون مظفر آباد پہنچ گئیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ مل کر پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کریں گے۔ قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوئی تو پھر یاد رکھئے کہ پہلے احمد فراز گرفتار ہوئے تھے اور کچھ عرصے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھی گرفتار ہو گئے تھے جس معاشرے میں کسی شاعر کی گستاخی برداشت نہ کی جائے اس معاشرے میں کسی پاپولر لیڈر کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ