بھارت:طویل ترین انتخابی عمل کا اختتام اور مسلمان : تحریر افتخار گیلانی


لیجئے سات مرحلوں پر محیط طویل ترین انتخابی عمل بھارت میں بس اب مکمل ہونے والاہے۔ چونکہ پہلے مرحلے کی نوٹیفیکیشن20مارچ کو جاری کی گئی تھی، اس لئے یہ عمل 73دن تک جاری رہا۔ انتخابی عمل کے شروعات میں ہی ان کالمز کے ذریعے، میں نے بتانے کی کوشش کی تھی، کہ 2024 کا انتخاب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمان کے نام پر لڑے گی۔ عوام کو لبھانے کیلئے ہندو قوم پرستوں کے پاس تین ہی ہتھیار ہوتے ہیں۔ گائے، پاکستان اور مسلمان۔ ان میں سے اولذکر دو کو 2014 اور 2019 میں بھنایا جا چکا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے جس طرح ہندو اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں سے ڈرایا، اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے گریز کیا۔کانگریس نے اپنے منشور میں مسلم لفظ کو استعمال کرنے سے احتراز کیا۔ بھارت کی 543کل لوک سبھا کی سیٹوں میں جموں و کشمیر سمیت 161سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلمان 15فیصد یا اس سے زیادہ ہیں۔ جس طرح کا جمہوری نظام جنوبی ایشیائی ممالک نے اپنایا ہے اس کے مطابق کسی پارلیمانی سیٹ میں 15فیصد کا ووٹ بینک نہایت اہم ہوتا ہے۔ 86کے قریب ایسی سیٹیں ہیں، جہاں و ہ 20فیصد ہیں اور ان میں 16حلقوں میں ان کی تعداد 50فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ مگر اس کے باوجود سیکولر پارٹیوں نے بھی ان کو دور دور ہی رکھا۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ بس ان کے امیدوار کو ووٹ دیں۔ کانگریس نے کل 328امیدوار میدان میں اتارے، جن میں صرف 19مسلما ن تھے۔ 2014 اور 2019 میں پارٹی نے بالترتیب 31اور 34مسلمان امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے دم سے ہی قائم اترپردیش کی سماج وادی پارٹی نے کل 71امیدوار وں کو ٹکٹ دئیے اور ان میں صرف چار مسلمان تھے۔2019 میں اس پارٹی نے 8 مسلم امیدوارں کو میدان میں اتارا تھا، جس میں تین جیت گئے تھے۔ یہی حال پڑوس کے بہار صوبہ کا ہے، جہاں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصہ میں آئی 24سیٹوں میں سے صرف دو پر مسلمان امیدواروں کو اتارا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے کل 82امیدواروں میں 10مسلمانوں کو ٹکٹ دئیے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی،جو 440سیٹوں پر قسمت آزمائی کر رہی ہے، نے صرف ایک مسلمان ایم عبدالسلام کو ٹکٹ دیا ہے، جو جنوبی صوبہ کیرالا کی مالاپورم سیٹ سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔جب اس صوبہ میں وزیر اعظم مودی نے روڈ شو کیا تو ان کو اس سے دوررکھا گیا، تاکہ مودی کے ساتھ ان کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہ بن پائے، جس سے پارٹی کا کور ہندو ووٹ بینک ناراض ہوجائے۔ 2014 کے بعد سے مودی کے جادو نے مسلم ووٹ کو اس حد تک بے وقعت اور بے وزن بنایا کہ سیکولر پارٹیاں بھی ان کو دور سے ہی سلام کرکے بس ووٹ دینے کی درخواست کرتی ہیں۔ مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے مسلم ووٹ کو بے وزن کرنے کا فارمولہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ مسلم اکثریتی یا اثر و رسوخ والے حلقوں میں لاتعداد مسلم امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار کھڑا کردو، تاکہ مسلم ووٹ ان میں تقسیم ہوجائے اور پھر کئی درجن سیکولر پارٹیاں بھی ان حلقوں میں مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیتی تھیں، جس سے ووٹ مزید تقسیم ہو جاتے۔ دوسری طرف ہندو ووٹوں کو ہندو توا کا جام پلا کر سیٹیں اپنے نام کردی جائیں۔ اس لئے 2014 میں 86مسلم اکثریتی سیٹوں پر بی جے پی کو 38اور پھر 2019 میں 36سیٹیں مل گئیں۔ سیکولر پارٹیوں کے لیڈران کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس بار انہوں نے قلیل تعداد میں مسلمانوں کو میدان میں اتارا۔ ان کے مطابق پچھلے کئی سالوں میں بہار اور مغربی بنگال میں جو اسمبلی انتخابات ہوئے،ان میں مسلمانوں نے جم کر بالترتیب راشٹریہ جنتا دل اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے ہندو امیدواروں کو ووٹ ڈالے اور کانگریس اور بائیں بازو کی طرف سے کھڑا کئے گئے مسلم امیدواروں کو مسترد کر دیا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ جہاں مسلمان تھوڑا بہت طاقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں ہندو ووٹ پولارائز ہوتا ہے۔ اس کے ذمہ دار مسلمان بڑی حد تک خود ہی ہیں کہ پچھلے ایک ہزار برسوں سے وہ ابھی تک ہندو یا دیگر مذاہب کے پڑوسیوں تک کوئی آوٹ ریچ کرسکے ہیںنہ ان کو بتا پائے ہیں کہ وہ ان کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہیں، بلکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، جو امن کا داعی ہے۔ بی جے پی اور پھر وزیر اعظم کی طرف سے خود ہی مسلمانوں کو انتخابی ایشو بناکر ان کے خلاف ایک ماحول بنانے سے، نیز کشمیر کی تین مسلم اکثریتی پارلیمانی حلقوں سے امیدوار کھڑا نہ کرنے کے فیصلہ نے ان کے مسلم آؤٹ ریچ کے پروجیکٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔بی جے پی کے لیڈر کے مطابق ان کو بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک جسد واحد کی طرح دیکھنے کے بجائے ان کو مختلف فرقوں اور ذاتوں کی عینک سے دیکھا جائے اور سنی فرقہ میں دیوبندی، بریلوی اور پھر شیعہ فرقہ کیلئے الگ الگ اسٹریٹجی بنائی جائے۔ اسی طرح پسماندہ مسلمانوں (اجلال) کو دیگر مسلمانوں یعنی خود ساختہ اشراف کے مقابل کھڑا کیا جائے۔بوہرہ مسلمانوں پر مودی نے خود ہی داؤ لگایا ہوا تھا۔ بھارت کی200 ملین مسلم آبادی میں 57فیصد کا تعلق پسماندہ طبقہ سے ہے۔ ان انتخابات میں پسماندہ مسلمانوں کے ووٹ پیٹرن بی جے پی کی مسلمانوں کے بارے میں آئندہ کی حکمت عملی طے کرے گا۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندو قوم پرستوں کا عمومی نظریہ کیا ہے اس کا خلاصہ کئی دہائی قبل بھار ت کے پہلے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل نے جوش ملیح آبادی کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا ہے۔ انہوں نے جوش کو کہا تھا کہ ہندؤوں کو باہر سے آکر بھارت میں بسے مسلمانوں سے کوئی گلہ نہیں ہے ، مگر نچلی ذات کے ہندو، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اب سمجھتے ہیں کہ وہ اب ہمارے(یعنی ہندو اونچی ذاتوں) کے برابر آگئے ہیں، سے انہیں شکایت ہے۔ جوش کی خود نوشت کے مطابق پٹیل نے ان مسلمانوں کو مفسد تک بتایا تھا۔مگر مودی اپنے سیاسی گورو پٹیل کے برعکس پسماندہ مسلمانوں کو باقی مسلمانو ں سے متنفر کرکے ان کے ووٹ بٹورنا چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ ہاتھ مسلمانوں کا خود بھی ہے، جو ذات پات کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتے ہیں۔ گو کہ مسلمان اس بار یکمشت سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے رہے ہیں، مگر ساتھ ہی ان کو باور کرار ہے ہیں کہ ان کو ایک مذہبی گروپ کے بجائے ایک ایسے گروپ کے روپ میں دیکھیں، جو ملک کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے اور اگر اس دو سو ملین آبادی کی پسماندگی کو دور نہیں کیا گیا تو بھارت کا اگلے تین سالوں میں پانچ ٹریلین ڈالر اور پھر 2030 تک سات ٹریلین ڈالر کی اکانومی بننا ناممکن ہے۔ چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ اس آبادی کیلئے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز