ایوان اقتدار کے کچھ بااختیار حلقے اور لاہور میں تعینات کچھ بیورو کریٹس مجھ سے ناخوش تھے اور مجھے تبدیل کرانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ میرے خیال میں افسران کے لیے میں اس لیے قابلِ قبول نہیں تھا کہ ِان کی ثقافتی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوتا تھا، مگر آئی جی پنجاب نے ایک بڑی میٹنگ میں یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ کچھ افسر ایس پی سٹی کے اس لیے خلاف ہیں کہ وہ اسے اپنے اشغالِ شبینہ کی وجہ سے خطرہ تصور کرتے ہیں کہ وہ انھیں رنگے ہاتھوں گرفتار نہ کرلے۔
دراصل اس وقت پولیس اور انتظامیہ کے کچھ سینئر افسر طاؤس و رباب اور رقص وشباب کے رسیا تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر رقاصائیں اور اداکارائیں خود ہمارے بنگلوں پر آکر ہمارا دل نہ لبھائیں تو ہماری افسری کس کام کی!۔ لہذا انھوں نے اپنے اس ذوق کی تسکین کے لیے کچھ خدمت گذار ڈھونڈ لیے تھے جو سینئر افسروں کے اپنے یا کچھ محفوظ بنگلوں پر مجروں کی محفلیں منعقد کرایا کرتے تھے۔ مگران کے دل میں ایک انجانا سا خوف بھی رہتا تھا لہذا وہ ہر وقت مجھے لاہور سے ٹرانسفر کرانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
لیکچررصاحبان کی گرفتاری اور تصویر پر ٹیچرز کی ہڑتال نے انھیں سنہری موقع فراہم کردیا۔ مگر وہ اس وقت سخت مایوس ہوئے جب ٹیچرز نے اس سارے واقعے کا ذمے دار اے سی سٹی کو قرار دیا اور اسے معطل کرنے کا مطالبہ کردیاجب کہ پولیس پر کوئی ذمے داری نہ ڈالی ۔ میرے مہربانوں نے جب یہ سنہری موقع ہاتھ سے جاتے دیکھا توکمشنر لاہور نے اے سی سٹی کو اپنے پاس بلاکر ڈانٹ پلائی اور کہا،امتحانات کا سارا آپریشن تو پولیس کرتی رہی ہے جب کہ ٹیچرز تمہاری معطلی کا مطالبہ کررہے ہیں، یہ تمہاری نااہلی ہے، تم اسے کیوں manage نہیں کرسکے۔ پھر اسے وکیلوں کی طرح گائیڈ کیا کہ تم اخبارات میں بیان شایع کراو کہ یہ سب کچھ ایس پی سٹی(راقم) نے کرایا ہے۔
اس نے کچھ لیت و لال سے کام لیا۔ کیونکہ میرے ساتھ اس کے اچھے مراسم تھے اور وہ میرے خلاف اس طرح کا بیان (جس کی سروسز میں کوئی روایت بھی نہیں تھی) نہیں دینا چاہتا تھا مگر کمشنر نے اس پر دباو ڈال کرمیرے خلاف بیان جاری کرادیا۔ اس کے بعد محکمہ تعلیم کے افسروں کے ذریعے دباو ڈلواکر ٹیچروں کے ایک آدھ عہدیدار سے بھی بیان دلوادیا کہ چونکہ یہ سارا آپریشن ایس پی سٹی کی نگرانی میں ہورہا ہے لہذا وہ بھی ذمے دار ہے۔
ان بیانات کے اخباری تراشے لے کر مہربان اس وقت کے شریف النفس مگر کمزور وزیرِاعلی غلام حیدر وائیں صاحب سے ملے اور ان سے کہا کہ یہ سب کچھ ایس پی سٹی نے ہی کرایا ہے لہذا اسے فوری طور پر تبدیل کیا جائے ۔ اس سے حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے اور حکومت کی بھی نیک نامی ہوگی۔ وائیں صاحب نے آئی جی صاحب (اس وقت چوہدری منظور احمد آئی جی پنجاب تھے۔جو بڑے بااصول اور دبنگ افسر تھے) کو بلایا اور کہا کہ ایس پی سٹی کو ٹرانسفر کردیں۔ آئی جی صاحب سارے حقائق مجھ سے پوچھ چکے تھے، لہذا انھوں نے کہا، چیف منسٹر صاحب! میں ایس پی سٹی کو اچھی طرح جانتا ہوں، اگر اس نے ٹیچروں کو گرفتار کیا ہوتا تو وہ مجھ سے کبھی حقائق نہ چھپاتا ۔ جب اس نے یہ کام نہیں کیا تو پھر اسے کیوں سزا دی جائے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ کے یہ سینیئر افسر اپنے اشغال کی وجہ سے اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ چیف منسٹر نے وزیرِتعلیم سے رائے پوچھی تووہ خاموش رہے، اس پر مہربانوں نے پھربیک زبان کہا، سر! ایس پی سٹی کو تبدیل کیے بغیر یہ بحران حل نہیں ہوگا۔ چیف منسٹر نے پھر آئی جی صاحب پر زور دیا جس پر انھوں نے مشروط طور پر فیصلہ قبول کر لیا مگر یہ بتادیا کہ ٹھیک ہے آپ چاہتے ہیں تومیں اسے ہٹادیتا ہوں مگر اس سارے واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہو، انکوائری مکمل ہونے تک میں کسی اور افسر کو اس کی جگہ تعینات نہیں کروںگا اور اگر انکوائری میں اسے گناہ گار قرار نہ دیا گیا تو وہ دوبارہ ایس پی سٹی لگے گا۔ وائیں صاحب کو اتفاق کرنا پڑا۔اسی شام مجھے اور اے سی سٹی کو ٹرانسفر کردیا گیا اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے حکومت کی درخواست پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور نواب اوصاف علی خان (جو ایک نہایت دیانتدار اور بااصول جج تھے) کو انکوائری افسر مقرر کردیا۔
اخبارات نے بوٹی مافیا کے خلاف پولیس آپریشن کو ٹِنڈ آپریشن اور جوڈیشل انکوائری کو مرغا اسکینڈل کی انکوائری کا نام دیا اور مزے لے لے کر اس کی رپورٹنگ کی۔ مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ چونکہ جوڈیشل انکوائری میں ایک جج صاحب کے سامنے مجھے اپنا موقف پیش کرنا ہے لہذا بہتر ہوگا کہ میں اپنا موقف اپنے وکیل کے ذریعے پیش کروں ۔ اب میرے لیے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کسے وکیل کریں ؟ وکیل ایسا ہو جو قابل بھی ہو اور فیس بھی نہ لے کیونکہ کسی اچھے وکیل کی فیس ادا کرنے کے لیے میرے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔
وسائل کی کمیابی مجھے رفیق باجوہ صاحب ( جو پی این اے کی تحریک میں بڑے مشہور ہوئے تھے اور بڑے اچھے مقرر تھے) کی دہلیز پر لے گئی جو مفت پیش ہونے پر تیار ہوگئے۔ مقررہ تاریخ پر جب عدالت میں انھوں نے بولنا شروع کیا تو چشم تصور میں یہی سمجھا کہ وہ موچی دروازے میں اسٹیج پر کھڑے ہیں اور ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کررہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قانونی دلائل دینے کے بجائے ایک سیاسی تقریر کر ڈالی جس کا کیس سے یا میرے موقف سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔
اس پر مجھے خود مداخلت کرکے جج صاحب سے کہنا پڑا کہ باجوہ صاحب کی تقریر ان کا اپنا موقف تو ہوسکتا ہے، میرا موقف ہر گز نہیں ہے اور اب میں بغیر وکیل کے اپنا کیس خود لڑوںگا ۔مجھے یاد ہے کہ اگلی تاریخ پر میں نے اے سی سٹی پر خود جرح کی جسے وہاں موجود سینئر وکلا نے بہت سراہا ۔جو ڈیشل انکوائری مہینہ بھر چلتی رہی،جس کے بعد سیشن جج صاحب (جو بعد میں ہائی کورٹ کے جج بھی بنے )نے رپورٹ دے دی جس میں مجھے بری الذمہ قرار دیا گیا۔ میں جوڈیشل انکوائری میں بری ہوا تو آئی جی صاحب کے کہنے پر مجھے دوبارہ ایس پی سٹی تعینات کر دیا گیا۔
ان دنوں لاہور پولیس کا سربراہ ایس ایس پی ہوتا تھا جس کے ساتھ صرف دو ایس پی ہو تے تھے۔ ایس پی سٹی اور ایس پی کینٹ ۔ مشہور و معروف پروفیسر دلاور صاحب کے صاحبزادے اسرار احمد صاحب (اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائیں) ایس ایس پی تھے ۔ اس وقت ایس پی سٹی کی jurisdiction شاہدرہ سے شروع ہو کر چوہنگ تک جاتی تھی ۔ایس پی کینٹ عبداللہ خالد تھے جو سب انسپکٹر سے پروموٹ ہو کر اس عہدے تک پہنچے تھے۔
لاہور کے جلوس عموما ناصر باغ سے شروع ہوتے اور مسجدِ شہدا یا اسمبلی ہال کے سامنے فیصل چوک پر آکر اختتام پذیر ہوتے تھے۔ایک بار کسی اِشو پر خواتین نے جلوس نکالا ،پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اس لیے پولیس نے جلوس کو چیئرنگ کراس (فیصل چوک) جانے سے روکا ۔ ایک دو خوا تین کی کچھ لیڈی پولیس افسروںسے پہلے پنجہ آزمائی اور پھر ہتھ جوڑی ہو گئی جس کے نتیجے میں ایک خاتون گر گئی جسے موقع پر موجود ایس پی کینٹ نے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی ۔پریس فوٹو گرافر تو ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں،کسی فوٹوگرافر نے وہ سین کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔
دوسرے روز تصویر کے نیچے کیپشن درج تھا، ایس پی کینٹ ایک خاتون کوزمین پر لٹاکرمار رہا ہے ۔اس پر ایک طوفان کھڑاہو گیا ،خواتین نے عبداللہ خالد کی معطلی کا مطالبہ کردیا اور پریس نے خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایس پی کینٹ کی میڈیا کوریج کا بائیکاٹ کر دیا ۔ اس پر آئی جی صاحب نے ہدایات جاری کیں کہ مال روڈ پر آنے والے تمام جلوسوں کے ساتھ صرف ایس پی سٹی رہے گا اور وہی ان سے ڈیل کیا کرے گا ۔
اس کے کچھ عرصہ بعد عراق نے کویت پر حملہ کر دیا۔ حکومتِ پاکستان نے صدام حسین کی جارحیت کے خلاف پالیسی بیان دیا جب کہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے صدام کے حق میں بیان دے دیا ۔ نہ جانے کیوں ہمارے جذباتی عوام کی ہمدردیاں صدام کے ساتھ ہوگئیں اور اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جانے لگا ۔ ہر روز صدام حسین کی ہزاروں کی تعداد میں ایسی تصاویر بکنے لگیں جس میںوہ کہیں تلوار پکڑ کر گھوڑے پر سوار ہے اور کہیں تسبیح پکڑ کر جائے نماز پرعبادت میں مصروف ہے ، حالانکہ وہ ایک سیکولر، سوشلسٹ نظریات رکھتا تھا ۔
حکمرانوں کے میڈیا مینیجرز ایسی تصویریں عوام کے جذبات سے کھیلنے اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شایع کراتے رہتے ہیں (امریکیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر صدام حسین جس دھج سے مقتل میں گیا اس پر اب دل سے اس کی مغفرت کے لیے دعا نکلتی ہے) بہرحال صدام کے حق میں ہر روز جلوس نکلنا شروع ہوگئے۔
میں ناصر باغ سے جلوس کے ساتھ فیصل چوک تک جاتا ، اسے ختم کراکے واپس پہنچتا تو ایک دو اور جلوس چلنے کے لیے تیار ہوتے۔دوسرا راستے میں ہی ہوتا کہ تیسرا جلوس بھی اس سے آملتا۔ اس مہینے جلوسوں کا بڑا سیزن لگا، بارہ سے پندرہ جلوس یومیہ کی اوسط رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ دسمبر کا مہینہ تھا، سردیوں میں بڑی خوشگوار دھوپ ہوتی تھی، اس لیے زیادہ محسوس نہیں ہوا بلکہ ڈیوٹی بھی چلتی رہی اور کئی کلومیٹر روزانہ کی واک بھی ہوتی رہی۔ ہمارے جذباتی عوام کی صدام حسین سے محبت نے میرا وزن کم کرنے اور اسمارٹ بنانے میں بڑی مدد کی ۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس