ذاتی اختلاف یا اصولی اختلاف؟ : تحریر سہیل وڑائچ


مجھے عمران خان اور تحریک انصاف سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ عمران خان کرشماتی شخصیت ہیں، کرکٹ ہیرو کے طور پر انہوں نے پوری قوم کو خوشیاں دیں۔ تحریک انصاف پاکستان کی مڈل کلاس کی خواہشوں اور آدرشوں کی ترجمان ہے۔ اوورسیز پاکستانی عمران خان کی وجہ سے پاکستانی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی یوتھ عمران خان کے سیاست میں آنے سے پہلے پاکستانی سیاست سے بالکل لاتعلق ہوتی تھی لیکن اب وہ مکمل سیاسی ہو چکی ہے۔ میں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار اپنی تحریروں اور ٹی وی پر ہونے والی گفتگوؤں میں کیا ہے۔ اس موقف کے باوجود میرے عمران خان اور تحریک انصاف سے اصولی اختلافات ہیں اور شاید آئندہ بھی رہیں گے۔ یہی حال نواز شریف کا ہے، ذاتی طور پر مجھے ان سے کوئی اختلاف نہیں لیکن آج کل ان کی تحریک انصاف کو دبانے کی پالیسی پر شدید اصولی اختلاف ہے، پچھلے ڈیڑھ سال سے میں اس اختلاف کا برملا اظہار بھی کرتا رہا ہوں، میری عاجزانہ رائے میں ذاتیات پر تنقید اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے لیکن جمہوری معاشرے میں اصولی اختلاف ضروری ہے اور اس سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔

میں مقتدرہ کو ریاست کا اہم ترین جزو سمجھتا ہوں اور جمہوری مفکر فرید زکریا کے بقول جس ریاست میں امن وامان نہ ہو وہاں جمہوریت قائم ہی نہیں ہو سکتی اور مقتدرہ کے بغیر ریاست میں امن قائم نہیں ہو سکتا گویا وہاں جمہوریت آ ہی نہیں سکتی۔ لیبا اور شام میں امن نہیں اسلئے وہاں جمہوریت کے قائم ہونے کی گنجائش نہیں۔ مقتدرہ نے جس طرح کراچی میں ایکشن کر کے فاشزم، دہشت گردی اور دھونس دھاندلی کے ذمہ داروں کو ٹھکانے لگایا اور پھر دہشت گردی کے خلاف لڑائی بھی فوج ہی نے لڑی، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امن قائم ہوئے بغیر نہ سیاست چل سکتی ہے اور نہ جمہوریت، مقتدرہ کیلئے یہ ذاتی خیال رکھنے کے باوجود مجھے مقتدرہ کے سیاست میں مداخلتی کردار پر شدید اختلاف ہے اور میں اپنے آغاز صحافت 1986 سے ہی مسلسل اپنے اس اختلاف کا اظہار کرتا آیا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آئینی اور جمہوری حکومتوں میں مقتدرہ کی عدم مداخلت سے ہی ہم فلاحی عوامی ریاست کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کسی سے اصولی اختلاف کریں تو وہ اسے ذاتی اختلاف پر محمول کرتا ہے۔ اگر نواز شریف نے اپنی وزارت عظمی کے زمانے میں خلیفہ بننے کا بل تیار کروا لیا تو جمہوری صحافی اسکی اصولی مخالفت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ اگر زرداری گیلانی حکومت ڈیلیور نہ کر سکی تو صحافی اس معاملے کو ہائی لائٹ نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟ اسی طرح عمران خان اپنے دور میں پیکا قانون لائے تو صحافی اس کے خلاف اصولی موقف اختیار نہ کرتے تو کیا کرتے؟ حسن اتفاق دیکھئے کہ اس پیکا قانون کو اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے غیر قانونی قرار دیا تھا اور اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سخت برا لگا تھا، آج کل وہی جسٹس اطہر من اللہ انصافیوں کے ہیرو ہیں گویا انصافی یا توپہلے غلط تھے یا اب غلط ہیں؟ اسی طرح جب جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف جنرل فیض کے ایما پر عمران حکومت نے ریفرنس بھیجا تو پھر صحافیوں نے اصولی اختلاف کیا، بعد میں عمران خان نے خود مانا کہ یہ ریفرنس غلط تھا۔ آج کل انصافی پھر قاضی فائز عیسی کے خلاف پوسٹس لگا رہے ہیں اب انصافی خود فیصلہ کریں کہ وہ کہاں غلط تھے اور کہاں درست؟ اسی طرح جب سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر کے میڈیا کا منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی تو صحافی اس معاملے پر سخت اصولی موقف نہ اپناتے تو اور کیا کرتے؟ انصافی آج میڈیا پر پابندیوں کے خلاف بات کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ میڈیا کا جس طرح مالیاتی گلا گھونٹا گیا، سینکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے کم از کم اپنے ان اقدامات پر معذرت ہی کر لیں، اسی طرح اصولی مخالفت کرنے والے صحافیوں بالخصوص صحافی خواتین کی ٹرولنگ کرنے اور گالیاں دینے پر معافی مانگیں۔ بعینہ نون بھی اصولی اختلاف کرنے والوں کو ذاتی دشمن قرار نہ دے، مقتدرہ کو بھی اصولی اختلاف کو برداشت کرنا چاہئے، شاعروں اور صحافیوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ دانشمندی نہیں بے وقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر بات کرنے کی آزادی ہی نہیں ہو گی تو پھر آئین میں دی گی اظہار رائے کی آزادی کا کیا ہوگا؟ہم چند صحافی گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں کہ سیاسی ڈیڈلاک کا حل سیاسی مذاکرات اور پھر سیاسی مفاہمت میں ہے، شروع میں نون اور انصافی دونوں اس آئیڈیا پر ناک بھوں چڑھاتے تھے دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے آج بھی وہی صورتحال ہے مگر حل اب بھی وہی ہے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے تو بتایا جائے؟ مقتدرہ کو بھی یہ بات پسند نہیں مگر کیا صرف دبانے سے مسئلے کا حل نکل آئے گا؟ ہرگز نہیں۔ مفاہمت میں ہر فریق کو لچک دکھانا پڑتی ہے ذاتی اختلاف کو ایک طرف رکھ کر اصولی معاملات پر اتفاق کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے تشدد پسند معاشرے کا مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ ہر فریق کو اپنے اپنے انتہا پسند اچھے لگتے ہیں، مسلسل انتہا پسندی کی کیفیت اور سخت موقف میں یقین رکھنے کے بعد یہ تینوں بڑے فریق انتہا پسندی کے حصار میں قید ہو چکے ہیں اور اب ان کی صورتحال یہ ہے کہ یہ تینوں فریق اپنے اپنے انتہا پسندوں کے مغوی ہیں اگر وہ اس نرغے سے نکلنے کی کوشش بھی کریں تو ان تینوں فریقوں کے انتہا پسند اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی اختلاف و جھگڑوں کی وجہ سے انہیں رہائی نہیں دیں گے، وہ انتہا پسند عقل اور امن کی بات سننے کو تیارہی نہیں، انہیں لڑائی سوٹ کرتی ہے مگر کیا ملک کے مفاد میں لڑائی ہے یا سیاسی مفاہمت؟ کون ذی ہوش ہے جو اس سے اتفاق نہیں کریگا کہ اب ریاست کو آگے چلانے کا واحد حل سیاسی مفاہمت ہے، اگر ڈیڑھ سال پہلے ہی اس بات کو سمجھ لیا جاتا تو آج معاملات نو ریٹرن تک نہ پہنچتے۔ ذاتی اختلاف اور اصولی اختلاف میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ذاتی اختلاف میں غصہ، نفرت اور انتقام شامل ہو جاتا ہے لیکن اصولی اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے اور یہ اختلاف مذاکرات کی بنیاد پر طے ہو سکتا ہے۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے وقت مذہبی اور قومی جماعتوں میں شدید اصولی اختلافات تھے، قوم پرست اور مضبوط مرکز کی حامی جماعتوں کے اصولی موقف میں بھی بہت فرق تھا لیکن چونکہ ذاتی اختلافات نہیں تھے اس لئے ایک متفقہ دستاویز تیار ہو گئی جو آج تک نافذ العمل ہے اور سب کا اس پر کامل اتفاق ہے، آج کی سیاست میں بھی اصل مسئلہ ذاتی اختلافات کا ہے۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے تک کو تیار نہیں حالانکہ انکی جماعت روزانہ پارلیمان میں حکومت کے ساتھ بیٹھتی ہے۔ دوسری طرف نون لیگ عمران خان دور میں ہونے والی زیادتیوں، جیلوں اور انہیں دی جانے والی گالیوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں حالانکہ عمران خان اور نواز شریف کا جمہوری مفاد ایک ہے۔ اس صورتحال میں خواہش یہی ہے کہ ہم اصولی اختلافات کوطے کریں اور ذاتی اختلاف رکھنے والی حس کو خدا حافظ کہہ دیں، اسی میں ملک کا بھلا ہے ….!

بشکریہ روزنامہ جنگ