ضلع خانیوال میں ہونے والے قتل کا ملزم 21سال بعد بری

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2003میں پنجاب کے ضلع خانیوال میں ہونے والے قتل کے ملزم کو21سال بعد بری کردیا۔جبکہ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سندھ کے ضلع ٹنڈومحمد خان میں 2022میں قتل کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم کالعدم قراردے کردوبارہ تحقیقاتی افسر مقرر کرکے14روز میں تحقیقات کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ایس ایس پی ٹنڈومحمد خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کیس دوبارہ تحقیقات کے لئے تفتیشی افسر مقررکریں اور سابقہ تحقیق کاساراریکارڈ ان کے حوالہ کیاجائے۔ تفتیشی افسر ازسرنوتحقیقات کرکے 14روز کے اندردونوں فریقین کا مئوقف سن کر ٹرائل کورٹ میں رپورٹ جمع کروائیں۔

مدعا علیہ تفتیش میں تعاون کریں گے۔ اگر کسی فریق کوتحقیقات پر اعتراض ہوتووہ ایس ایچ اویا ایس ایس پی کو شکایت کرسکتاہے کہ تفتیشی افسر کام صیح نہیںکر رہا۔جبکہ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ جلد ازجلد کیس کی سماعت مکمل کرکے کیس کافیصلہ سنائے ۔ عدالت نے قراردیا کہ ٹرائل کورٹ فریقین کو غیر ضروری التوا نہ دے۔جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ تفتیشی افسر نے تودونوں فریقین کا مئوقف لینا ہے، ہر کیس کے اپنے حقائق ہیں۔ یہ مدعاعلیہ کاحق ہے کہ وہ اپنا مئوقف پیش کرے۔ جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنی اورخاص طور پر جب کیس ٹرائل کورٹ میں زیر التواتھا، جے آئی ٹی کی تشکیل کاپراسیس کیا تھا اورکس قانون کے تحت بنی۔

جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ سندھ میں ایس ایچ اورتفتیشی افسر بہت طاقتور ہے۔ مال خانے سے پولیس والے خود سب سے پہلے پیسے چوری کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے محمد نواز کی جانب سے صدام حسین اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سندھ کے ضلع ٹنڈومحمد خان کے تھانہ شیخ بھرکیو کی حدود میں 2نومبر2022کوقتل ہونے والے علی رضا لغاری اورتین افراد محمد نواز،، عقیل احمد اور عالم چانڈیو کے زخمی ہونے کے کیس کی تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے مدعا علیہ کی جانب سے عدم تعاون اوربیان ریکارڈ نہ کروانے کے معاملہ پر جے آئی ٹی بنانے کاحکم دیا تھا۔ دوران سماعت فریقین کی جانب سے غلام رسول منگی، محمود اخترقریشی اور نورلحق این قریشی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پیش ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنی اورخاص طور پر جب کیس ٹرائل کورٹ میں زیر التواتھا، جے آئی ٹی کی تشکیل کاپراسیس کیا تھا اورکس قانون کے تحت بنی۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھاکہ اس قسم کی نوعیت کے بہت سے کیسز ٹرائل کورٹس میں زیر التوا ہیں کیا سارے کیسز میں جے آئی ٹی بنائیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ شفاف تحقیقات ہوں، ہائی کورٹ نے تحقیقات کے لئے کس مقصد سے جے آئی ٹی بنائی۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا تین افراد کو لگنے والے زخموں کو تفتیشی افسر کی جانب سے چھپایا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ عدالت تفتیشی افسر کو کہہ دیتی کہ ان کو بھی سن لو ، جے آئی ٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ تفتیشی افسر کوکہہ دیتے ہیں کہ درخواست گزارکامئوقف دوبارہ سن کر سپلیمنٹری چالان جمع کروادے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے تودونوں فریقین کا مئوقف لینا ہے، ہر کیس کے اپنے حقائق ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ یہ مدعاعلیہ کاحق ہے کہ وہ اپنا مئوقف پیش کرے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کا کہنا تھاکہ جے آئی ٹی کاآرڈر ہائی کورٹ کاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو ختم کرکے تفتیشی افسرا کو دوبارہ معاملہ بھجوادیتے ہیں اوروقت دے دیتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ ڈیڑھ سال سے معاملہ زیر التوا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ تفتیشی افسر کوتحقیقات کاٹائم فریم دے دیتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ ٹرائل کورٹ کو جلد ٹرائل مکمل کری ہی ہدایات دے دیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ ایس ایس پی کی نگرانی میں تفتیشی افسر تحقیقات کرے ہم ہدایت دے دیتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایس پی انویسٹی گیشن کی نگرانی میں تحقیقات کاحکم دے دیتے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ سندھ میں ایس ایچ اورتفتیشی افسر بہت طاقتور ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایس ایس پی آزاد تفتیشی افسر کاتقررکرے اور اگر کسی کو شکایت ہوتومتعلقہ افسر سے شکایت کردے۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا مدعاعلیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تحقیقات ہونے دیں جومواد ہو گاریکارڈپر آجائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سارا مواد تفتیشی افسر کے حوالہ ہوگا۔عدالت نے حکم دیا کہ تفتیشی افسرا ایماندارانہ اورشفاف طریقہ سے کیس کی تحقیقات کرے۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست جزوی طور پر منظورکی جاتی ہے۔ عدالت نے ایس ایس پی ٹنڈومحمد خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کیس دوبارہ تحقیقات کے لئے تفتیشی افسر مقررکریں اور سابقہ تحقیق کاساراریکارڈ ان کے حوالہ کیاجائے۔ تفتیشی افسر ازسرنوتحقیقات کرکے 14روز کے اندردونوں فریقین کا مئوقف سن کر ٹرائل کورٹ میں رپورٹ جمع کروائیں۔مدعا علیہ تفتیش میں تعاون کریں گے۔ اگر کسی فریق کوتحقیقات پر اعتراض ہوتووہ ایس ایچ اویا ایس ایس پی کو شکایت کرسکتاہے کہ تفتیشی افسر کام صیح نہیںکر رہا۔جبکہ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ جلد ازجلد کیس کی سماعت مکمل کرکے کیس کافیصلہ سنائے ۔

عدالت نے قراردیا کہ ٹرائل کورٹ فریقین کو غیر ضروری التوا نہ دے۔جبکہ بینچ نے2003میں خانیوال میں ہوانے والے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت پانے والے محمد زاہد کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابدمجید پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کی جانب سے سقراط میر باسط پیش ہوئے۔ دوران سماعت جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھاکہ مال خانے سے پولیس والے خود سب سے پہلے پیسے چوری کرتے ہیں۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست گزار کی سزائے موقت کے خلاف اپیل سماعت کے لئے منظورکرتے ملزم کوبری کرنے کا حکم دے دیا۔جبکہ عدالت نے شریک ملزمان کی سزابڑھانے کے حوالہ سے دائر درخواستیں خارج کردیں۔عدالت نے قراردیا کہ درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔