ہم ایسے کیوں ہیں؟ : تحریر سہیل وڑائچ


ہم جب بھی کسی اجتماعی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں تو طبیعت پر بھاری بوجھ محسوس ہوتا ہے اور بار بار سوچ آتی ہے کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ طبیعت کے اس بھاری پن کو برسوں قبل سنا ہوا ایک لطیفہ ہلکا کر دیتا ہے کیونکہ کبھی کبھار اپنے اوپر تنقید اور خودمذمتی سے بھی پیچیدہ مسائل سمجھنے میں مدد ملتی ہے، لطیفے بھی بعض اوقات پیچیدہ ترین مسئلوں کا خلاصہ پیش کر دیتے ہیں۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ جہنم میں ہر قوم کیلئے ایک گڑھا مخصوص ہے، ہر قوم کے جہنمی اپنے اپنے گڑھوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں، ہر گڑھے کے اوپر فرشتوں کی بھاری گارڈ مقرر ہے تاکہ اگر کوئی جہنمی اپنے گڑھے سے باہر نکلے یا فرار ہونے کی کوشش کرے تو اسے روکا جا سکے۔ البتہ جہنم میں ایک گڑھا ایسا بھی ہے جس کے اوپر کوئی گارڈ نہیں۔ اور وہ گڑھا تضادستان کے جہنمیوں کیلئے مخصوص ہے۔ داروغہ جہنم سے کسی نے پوچھا کہ اس گڑھے پر گارڈز کیوں نہیں ہیں تو اس نے ہنس کر جواب دیا، اس گڑھے سے جب کوئی نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو باقی جہنمی اس کی ٹانگ کھینچ کر اسے دوبارہ جہنم میں کھینچ لیتے ہیں، اس لئے اس گڑھے پر چوکیدار یا گارڈ کی ضرورت نہیں۔ اس گڑھے کے مکین خود ہی ایک دوسرے کی تباہی کیلئے کافی ہیں۔

ہماری تاریخ اس لطیفے سے کافی مطابقت رکھتی ہے۔ سیاست دان مضبوط حکومت بنا لیتے ہیں تو مقتدرہ ان کی ٹانگیں کھینچ کر گرا لیتی رہی ہے۔ میڈیا آزاد ہوا اور اتنا موثر ہو گیا کہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا انحصار بھی اس پر ہو گیا تو تب معاشرے کے طاقتور گروہوں نے میڈیا میں دراڑ ڈال کر میڈیا کی ٹانگیں کھینچ لیں۔ اسی طرح جنرل ایوب اور جنرل مشرف نے معاشی ترقی کا سفر شروع کیا تو سیاسی پارٹیوں نے متحد ہو کر اسے بے اثر کر دیا۔ کسی بیوروکریٹ نے آؤٹ آف باکس سوچا اور عوامی انداز اپنایا تو ہمارے نظام نے اس باغی کو سبق سکھا کر رکھ دیا۔ عدلیہ نے اسمبلیوں کو توڑنے کو جائز قرار دیا، کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیر اعظم کو تین چار انا پرست ججوں نے بغض و عناد کی بنا پر گھر بھیج دیا اور اسے انصاف کا جھوٹا نام دے دیا۔ آج کل ہم سب ججوں کے پیچھے پڑے ہیں کہ کہیں وہ جہنم کے گڑھے سے نکل کر کوئی کارہائے نمایاں نہ سر انجام دے دیں، اس لئے سب ان کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔

عدلیہ کے جن چھ ججوں کا خط بہت متنازع بنا ہوا ہے ان میں سے دو ججوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، دونوں نامور وکیل تھے عوامی طور پر جانے جاتے تھے بطور صحافی میری دونوں سے رسمی شناسائی ہے اب جب کہ ان پر ناجائز ملبہ ڈالا جا رہا ہے تو ضروری ہے کہ میں اپنی گواہی کو نہ چھپاؤں بلکہ علانیہ طور پر اسے بیان کروں۔ جسٹس بابر ستار اور جسٹس اطہر من اللہ دونوں متمول خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں دونوں کی وکالت ٹاپ پر تھی، وکالت چھوڑ کر اور جج بن کر انہیں مالی طور پر بہت نقصان ہوا ہو گا دونوں نے ججی صرف اسی لئے قبول کی ہو گی کہ وہ عدلیہ میں شامل ہو کر پاکستان میں انصاف کی بہتری کیلئے کوئی کردار ادا کر سکیں۔

جسٹس بابر ستارجج بننے سے پہلے اخبارات میں مضامین لکھتے تھے ٹاک شوز میں اپنی آرا دیتے تھے، وہ واقعی قانون پر اتھارٹی رکھتے ہیں، دانشوری کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں، جج بن کر بابر ستار بڑے نہیں ہوئے ججی کا عہدہ ان کے نام سے بڑا ہوا ہے۔ مجھے جسٹس بابر ستار کے خیالات اور فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی دیانت، قانون پر ان کی دسترس اور ملک کیلئے ان کی وفاداری پر ذرہ برابر شک نہیں۔ وہ چاہتے تو بیرون ملک رہ کر ارب پتی بن سکتے تھے۔ وکالت کرتے تو کروڑوں روپے فیس لیتے مگر انہوں نے ججی قبول کی۔ ایسے لوگوں کا سب کو احترام کرنا چاہئے اسی طرح کے لوگ ہمیں جہنمی معاشرے سے نکال کر قانون اور انصاف کے معاشرے میں لے جا سکتے ہیں، ان کے اختلاف کو برداشت کرنا چاہئے اور اسے بھی اصلاح کے راستے میں ایک قدم سمجھنا چاہئے۔ جسٹس بابر ستار کے حق میں اس سے بڑی گواہی کیا ہو گی کہ حکومت کے اٹارنی جنرل اور ہمارے دوست ملک حیدر عثمان کے صاحبزادے منصور اعوان نے بھی ان کی دیانت اور راست گوئی کو سراہا ہے۔ بابر ستار جیسے گنے چنے لوگ ہمارے لئے مینارہ نور ہیں وہ اختلاف بھی کر رہے ہوں تو اس میں بھی کوئی حکمت ہو گی۔

جسٹس اطہر من اللہ ملک کے مشہور پڑھے لکھے اور بیوروکریٹ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ آزادی تحریک کے بڑے رہنما رہے ہیں۔ انکی راست فکری اور عوامی و جمہوری سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے وہ اناپرست اور خود کو خدا سمجھنے والے ججوں کے درمیان بیٹھ کر بھی پارلیمینٹ کو بالاتر ادارہ قرار دیتے ہیں حالانکہ کئی بڑے دماغ مگر تنگ نظر رکھنے والے جج جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے پارلیمان کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیتے رہے ہیں، آج کے بحرانی دور میں اطہر من اللہ غنیمت ہیں۔اس موقع پر مجھے یاد آ رہا ہے کہ پنجاب کانگریس کے صدر میاں افتخار الدین نے پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو مہاتما گاندھی نے اپنے ہاتھ سے اردو میں میاں افتخارالدین کو خط لکھا (یہ خط میاں خاندان کے پاس محفوظ ہے) جس میں کہا ’’میاں آپ بھلے آدمی ہو جہاں بھی رہو گے بھلا ہی کرو گے‘‘ اختلاف کے باوجود احترام، انسانی شرف کی نشانی ہے۔ جسٹس بابر ستار اور جسٹس اطہر من اللہ سے اختلاف کے باوجود ان کے احترام میں فرق نہیں آنا چاہئے۔

تاریخ کا مشہور قصہ ہے کہ فرانسیسی صدر ڈیگال کے زمانے میں نامور فلسفی اور دانشور ژاں پال سارتر نے الجزائر میں ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو ڈیگال کو مشورہ دیا گیا کہ سارتر کو جیل میں ڈال دیا جائے، ڈیگال نے اس پر تاریخی جواب دیا کہ ’’سارتر تو فرانس ہے فرانس کو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے‘‘ بابر ستار اور اطہر من اللہ جیسے لوگ ملک کا ضمیر ہیں ان سے ڈیل کرتے ہوئے ڈیگال والا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

آخر میں میری نونیوں، انصافیوں، جیالوں، وزیروں اور انکے مخالفوں، سویلین بالادستی کے حامیوں اور مقتدرہ کے وفاداروں، سب سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ہم جہنم کے گڑھے میں بیٹھ کر اپنے بہترین دماغوں کی ٹانگیں نہ کھینچیں۔ تعصب، نفرت اور سیاسی دشمنیاں اپنی جگہ مگر جن ججوں کا ماضی بے داغ ہے، جنہوں نے جمہوریت، آزادی اظہار، عدلیہ کی آزادی اور پارلیمان کی بالادستی کے حق میں فیصلے کئے ہیں انہیں اپنے سطحی مقاصد کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اگر یہ کوئی فیصلہ آپ کے خلاف دے دیں تب بھی سقراط اور بھٹو کی طرح می لارڈ، می لارڈ کہتے ان کے فیصلوں پر صاد کریں، تاریخ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا اور اگر وہ کوئی فیصلہ آپ کے حق میں دے دیں تو اس پر خدا کی شکر گزاری کافی ہے۔ بابر ستار اور اطہر من اللہ جب سے جج بنے ہیں میں ان سے کبھی نہیں ملا مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری عدلیہ کے روشن ستارے ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان ان ججوں کے مخالف کیمپ میں ہیں مگر پھر بھی وہ ان کے حق میں بول پڑے ہیں قوم کا ضمیر جاگے گا تو سبھی انکے حق میں بولیں گے جب ایسا وقت آئے گا تبھی ہم جہنم کے گڑھے سے نکل سکیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ