سیاحتی علاقوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہوتی سڑکوں کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھ گیا

اسلام آباد (صباح نیوز)خیبر پختونخوا کے سیاحتی علاقوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہوتی سڑکوں کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھ گیا جبکہ حکومت کی طرف سے بلوچستان  میں گیس چوری روکنے کے لیے ارکان اسمبلی سے مدد مانگ لی گئی ۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے مالا کنڈ سوات دیر کی شاہراہیں تعمیر و مرمت کے لیے کے پی کے حکومت کے سپرد کرنے کا مطالبہ کر دیا اور این ایچ اے کو ناکام ادارہ قرار دے دیا ارکان نے واضح کیا ہے کہ گزشتہ سال پانچ لاکھ سیاح مالا کنڈ آئے اگر یہ سڑکیں بن جائیں تو سالانہ بیس لاکھ سیاح مالا کنڈ سوات آ سکتے ہیں ۔ ایوان میں محبوب شاہ ، بشیر خان ، امجد خان ، صفت اللہ اور ملک محمد عامر ڈوگر نے سوات مالا کنڈ کے سیاحتی مقامات کو جانے والی مرکزی چکدرہ اپر دیر شاہراہ کی نا گفتہ بہ حالت سے متعلق مشترکہ توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا ۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ علاقوں میں کام باقی رہ گیا  ہے ستانوے کروڑ روپے کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ مئی کے وسط یا مئی کے اواخر تک کام مکمل کر لیا جائیگا ۔ ارکان کا کہنا تھا کہ ہر طرف سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں سیاحت کو کیسے فروغ ملیگا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے علاقے کا دورہ کیا چار ارب روپے کے پیکج کی  منظوری دی مگر آنے والی  حکومتوں میں کوئی کام نہیں ہوا ۔ عوام ہم سے پوچھتے ہیں کہ کوئی حکومت ہے ۔

محبوب شاہ نے کہا کہ اگر این ایچ اے کام نہیں کر سکتا تو صوبائی  حکومت کو تعمیر و مرمت کا کام سپرد کر دیں ۔ وزیر قانون نے کہا کہ تفصیلی سوالات جمع کرا دیں بریفنگ لیکر مزید تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا ۔ جمال شاہ کاکڑ نے بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں گیس کمپنی کی زائد بلنگ اور زائد سروسز چارجز پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا اور کہا کہ جو سب سے کم گیس استعمال کرتا ہے اسے بھاری جرمانے عائد کر دئیے جاتے ہیں عدالت نے فکسڈ ریٹ مقرر کر دیا حکومت عملدرآمد نہیں کررہی ۔ وزیر قانون نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیر پٹرولیم سعودی عرب کے دورے پر ہیں اس لیے میں جواب دے رہا ہوں ۔ بتایا گیا ہے کہ کوئٹہ میں پچپن فیصد گیس کی چوری کی جاتی ہے یا میٹر ٹمپرنگ کے ذریعے گیس استعمال کی جاتی ہے ۔ فکسڈ ریٹ پالیسی معاملہ ہے ارکان اسمبلی سے گزارش کرتا ہوں کہ گیس چوری پر قابو پانے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کریں ۔

بعد ازاں انہوں نے ایوان میں تخم ترمیمی آرڈیننس 2024 ء پیش کیا ۔ عمیر نیازی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا  کہ اب پاکستان کے کاشتکاروں اور کسانوں کو ملٹی نیشنل  کمپنیوں کے سپرد کیا جارہا ہے یعنی ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی قائم  کی جا رہی ہے بیج پر بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہو گی اور ہمارا کسان بے بس ہو گا صوبوں کی اجازت کے بغیر سیڈ ایکٹ میں ترمیم نہیں ہو سکتی ۔ واضح طور پر درج ہے کہ زرعی معاملات اور سیڈ میں صوبوں کی پیشگی اجازت لینا ہو گی سابق اسپیکر اسد قیصر نے تجویز دی کہ زرعی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اور قومی اسمبلی میں دو دن گندم کے کاشتکاروں کی مشکلات پر بحث کی جائے ۔ نذیر تارڑ نے کہا کہ آرڈیننس کے معاملے کو کمیٹی میں دیکھا جائیگا اپوزیشن اپنے اعتراضات ریکارڈ پر لا سکتی ہے ۔