جمہوریتوں میں نظام کی کامیابی، ناکامی کی بنیاد وہاں کی اکثریت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس اکثریت کے دن رات بہت کرب اور بے چارگی میں گزر رہے ہیں۔ بے بسی اور بے کسی کی ایسی دل ہلادینے والی کہانیاں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ اس وقت یہ ساری شہ سرخیاں، عدالتی کارروائیاں، اپنی تحریریں، رہبروں کے بیانات بے معنی لگتے ہیں۔ دل کی گہرائی سے اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ خبر نہیں ہماری ریاضتیں، عبادتیں، قربانیاں ایثار خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں قبولیت بھی پارہے ہیں کہ نہیں۔ بلوچستان ہو، سندھ ہو، پنجاب کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، آفریں ہے کروڑوں خاندانوں کے سربراہوں پر کہ وہ کس طرح اپنے پیاروں کی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ بازاروں سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ گلیوں سے رحمتیں روٹھ گئی ہیں۔ 25کروڑ میں سے کم از کم 20کروڑ کس طرح اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ یہ وہ اور ان کی اولادیں جانتی ہیں یا وہ علیم و خبیر جانتا ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ یہ 20کروڑ ان مصائب سے کیوں دوچار ہیں۔ اس کے ہاں پوری شہادتیں اور دستاویزات موجود ہیں کہ اس کے نائب ان 20 کروڑ کی ابتلاؤں کے ذمہ دار کون ہیں۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
کل رات ہی کتب خانے کی شناخت سے ایک قول فیصل فیس بک پر پڑھنے میں آیا۔ ’’پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اسپتال، تھانہ، عدالت یا کسی بھی دفتر جانے سے پہلے واقفیت ڈھونڈنی پڑتی ہے۔‘‘
بالکل بر حق ہے حقیقت یہی ہے۔
ایسا کیوں ہے۔
76سال میں ہم اپنے اس عظیم وطن میں ایسا نظام یا سسٹم کیوں نہیں وضع کر سکے۔ جہاں سارے معاملات اپنے معمول کے مطابق از خود ہوتے رہیں۔ پاکستان بھی کسی سفارش سے بنا تھا یا اس کے لیے کسی کو رشوت دی گئی، یا کسی مقتدرہ نے اس کے لیے شہری امور میں مداخلت کی تھی۔ بر صغیر کے مسلمانوں کی طویل جدو جہد سے حاصل ہوا تھا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس پر جاگیردار، زمیندار، سردار، سرمایہ دار غالب آگئے،سارے ناکے انہوں نے سنبھال لیے۔ انگریز امور مملکت چلانے کے لیے جو سسٹم بنا گیا تھا۔ اس کو بھی مفاد پرست طبقوں نے اپنے اپنے لیے ہر دروازہ کھلے رکھنے کی خاطر بتدریج ختم کر دیا۔ غور کیجئے کہ ایک مستقل اور متفقہ آئین بنانے میں ایک طرف 26 سال لگ گئے۔ دوسری طرف اکثریت آپ سے الگ ہو گئی۔ یہ 26 سال اسی کشمکش میں گزر گئے۔ سارا سسٹم ختم کردیا گیا۔ یعنی ایک نسل جوان ہو گئی۔ پاکستان بنانے اور جدو جہد کرنے والی نسل بوڑھی ہو گئی۔ ملک میں سسٹم آئین سے ہی بنتا ہے۔ پھر اس آئین کے ساتھ کیا کیا ظلم نہیں ہوئے۔51سال میں دو فوجی حکومتیں۔ برداشت کیں۔ یہ بے چارہ سرد خانے میں پڑا رہا۔ اعلیٰ عدالتیں جو اس آئین کی محافظ ہوتی ہیں۔ انہوں نے ہی اس آئین کو محدود عرصے کیلئے غیر فعال کر دیا۔
آج جب اس آئین کے تحت ملک میں حکمرانی ہورہی ہے۔ آئینی صدر ہیں۔ آئینی وزیر اعظم ہیں۔ ایوان بالا ہے۔ ایوان زیریں ہے۔ صوبوں میں اسمبلیاں ہیں۔ لیکن اس آئین کے آغاز میں جس جمہور کو اختیار و اقتدار ایک مقدس امانت کے طور پر دیا گیا ہے۔ اس جمہور کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ تمہید کا پہلا جملہ یہ ہے :’’چونکہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا۔ وہ ایک مقدس امانت ہے۔‘‘
پاکستان کے 76سال کے دن رات دیکھ لیں۔ ملک پر جو بھی آفت قدرتی آئی ہو۔ انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہو۔ جو المیے برپا ہوئے ہیں حکمرانوں کی نا اہلی سے۔ جو بحران دامن گیر رہے۔ منظور نظر ناموزوں افراد کو اعلیٰ کلیدی عہدے دینے سے جو خلفشار برپا ہوا ہے۔ آئین کی معطلی سے۔ مارشل لاؤں سے۔ انتخابی دھاندلیوں سے جو مصائب اور آلام رونما ہوئے ان سب کا سارا ملبہ عام پاکستانی پر ہی پڑا ہے۔ حقیقی آزادی۔ آئینی جمہوریت۔ بنیادی انسانی حقوق کی بات مہذب ملکوں میں اچھی لگتی ہے۔
فلاحی اداروں کی سرگرمیاں۔ اربوں روپے کے رفاہی اقدامات اور مخیر پاکستانیوں کے عطیات سب قابل تحسین ہیں۔ لیکن ایک عظیم مملکت کو ۔ 25کروڑ کی آبادی کو ،مستحکم اور خوشحال بنانے کے لیے یہ طریقے کوئی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ علاج معالجے، کھانے پینے، تعلیم اور دیگر شعبوں میں اگر ایدھی۔ چھیپا۔ اخوّت۔ دی سٹیزن فاؤنڈیشن، سیلانی، انڈس اسپتال، عالمگیر، سندس فاؤنڈیشن، ایس یو آئی ٹی، شوکت خانم اسپتال، غزالی ٹرسٹ، پاکستان آئی بینک، سندھ مدرسۃ الاسلام بورڈ اور کئی قومی مقامی علاقائی تنظیمیں نہ ہوتیں تو ہم تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے شہروں دیہات میں کس کرب و بلا کے مناظر ہوتے۔ لیکن یہ سب کوششیں ایک ریاست کو خوشحال اور فلاحی مملکت نہیں بناسکتیں جب تک ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی۔ صدر بھی ہیں۔ وزیر اعظم بھی۔ آرمی چیف بھی۔ چیف جسٹس بھی۔ پارلیمنٹ بھی۔ یہ آئینی آفاقی باتیں اپنی جگہ ہیں ۔ منیر نیازی کے بقول ان 20کروڑ پاکستانیوں کی عمر کو بہرہ ور ایک کروڑ بسر کررہے ہیں۔ غالب یاد آتے ہیں۔’’زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ…ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘۔ اور اقبال کی التجا بھی ان کے لیے ہی ہے۔ ’’تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں…ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔‘‘ آبادی میں اضافے کی شرح بھی ان محروم اور مظلوم طبقوں میں ہی ہے۔ تعلیم میں کمی بھی انہی طبقوں میں ہے۔ کسی زمانے میں مزدوروں کسانوں کے لیے بائیں بازو والے آوازیں بلند کیا کرتے تھے۔ ٹریڈ یونین کے ایماندار رہنما کل اکثریت کی حالت زار کی تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ اب میڈیا کا مسئلہ بھی یہ نہیں ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کی ترجیح بھی یہ نہیں ہے۔
ریاست کے ستون جمہور کی اس زبوں حالی پر لرز جایا کرتے تھے۔ اب ہم سب اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ مگر اس اکثریت، چاہے یہ بلوچستان میں ہو، سندھ کے شہری یا دیہی علاقوں میں، پنجاب کے شہروں میں یا گاؤں میں، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں کشمیر میں، کے حالات بد تر ہیں۔ کبھی کبھی ایک آدھ کہانی باہر آجاتی ہے۔ ٹی وی ڈراموں میں، خبروں میں، مسجدوں کے وعظوں میں اس اکثریت کی بے بسی، مالی بے بضاعتی موضوع نہیں بنتی ہے۔ زکوٰۃ دی جا رہی ہے، جمع کی جا رہی ہے، مگر کوئی غور کررہا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحقین میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کسی نے حساب لگایا کہ 25 کروڑ کی آبادی میں کتنی زکوٰۃ سے کتنے کروڑ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ