حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ پر ناراض طبقہ کے پاس مسئلہ کا کیا حل تھا؟؟ کیا وہ لال مسجد سانحہ سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے یا اُس سے بھی بڑے کسی سانحے اور خون خرابے کے خواہش مند ہیں؟ ٹی ایل پی کے طریقہ احتجاج سے ہزار اختلاف اور تشدد کی مذمت کے باوجود، جو حکومت نے کیا وہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔ اگر رینجرز کو احتجاجیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو اس سے جو ممکنہ طور پر ہونا تھا وہ سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے ۔ ایسے میں یہی طبقہ حکومت کو ’’ماردیا مار دیا‘‘ کے طعنے دیتا جبکہ دوسری طرف ٹی ایل پی میں شدت پسندانہ رجحانات بڑھ کر ریاست اور حکومت کے خلاف مسلح ٹکراو میں بدل سکتے تھے۔ یاد رہے کہ لال مسجد سانحہ کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی میں بہت اضافہ ہوا تھا۔ ٹی ایل پی کا مسئلہ احتجاج کا وہ طریقہ ہے جو اسلامی اصولوں کے بھی خلاف ہے اور جو پرتشدد ہو کر دونوں اطراف ناحق خون بہنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے جسے بھڑکانے کی بجاے روکنے کی ضرورت ہے۔ ٹی ایل پی کے احتجاجوں کے دوران پولیس اور مظاہرین سمیت کئی جانوں کا ناحق خون بہہ چکا۔ اسی وجہ سے اسے کالعدم جماعت قرار ضرور دیا گیا لیکن اس کا موازنہ اُن دہشتگرد تنظیموں سے نہیں کیا جا سکتا جو مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں،بازاروں میں دہشتگرد حملہ کرتی ہیں، خودکش دھماکوں کے ذریعے فوج، پولیس اہلکاروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں اور جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں لیں۔ اس کا موازنہ بلوچ دہشتگرد تنظیموں سے بھی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے جرائم اور دہشتگردی کی لسٹ کے سامنے تو ٹی ایل پی کچھ بھی نہیں۔ ریاست کی کوشش ہے کہ ٹی ایل پی کو پرتشدد احتجاج سے دور کیا جائے اور پرامن احتجاج اور صاف ستھری سیاست کے طرف لایا جائے جو ایک بہترین فیصلہ ہے۔ ٹی ایل پی کے مقاصد سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ اختلاف صرف طریقہ احتجاج سے ہے، جسے درست کرنا مقصود ہے اور اسی لیے ریاست یعنی وزیر اعظم اور آرمی چیف نے پرامن مسئلہ کے حل کو گولی چلانے پر فوقیت دی ۔ معاہدہ کیا ہوا یہ ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوا لیکن جو کچھ سامنے آ رہا ہے اُس کے مطابق ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیم قرار دینے کا فیصلہ واپس ہو جائے گا، اس کے رہنمائوں کو جیل سے رہائی دے دی جائے گی اور اس کے جواب میں ٹی ایل پی آئندہ احتجاج کرے گی تو پرامن طریقے سے جس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔ جہاں تک پولیس والوں کی شہادت کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم اس بارے میں معاہدہ کیا کہتا ہے لیکن میری رائے میں ایسے جرم میں شریک افراد کو اس معاہدہ کے تحت رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ گزشتہ انتخابات میں ٹی ایل پی پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اتنی بڑی جماعت کو اُس کے چند افراد کی لاقانونیت یا جرم کی وجہ سے کالعدم قرار دے کر دہشتگر تنظیموں میں شامل کرنا نادانی کا ایسا فیصلہ ہو سکتا ہے جس کے نتائج پورے معاشرہ کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔ یہاں تو دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ آج کل بات چیت ہو رہی ہے تاکہ وہ ریاست کے سامنے سرنڈر کرے جس کے جواب میں اُسے عام معافی مل سکتی ہے۔ بلوچ دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد تو آئے روز تشدد کا رستہ چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اُنہیں ویلکم کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور اب بحیثیت قوم ہم ایم کیو ایم کے اُس ماضی کو بھول جانا چاہتے ہیں جس میں ٹارگٹ کلنک، دہشتگردی، بھتہ خوری روز کا معلوم تھا اور ہزاروں بے گناہوں کو مارا گیا۔ ویسے وہ طبقہ جو ٹی ایل پی کے ساتھ پرامن معاہدہ کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر ناراض ہے کیا وہ بلوچ دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ ریاست کی طرف سے ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی دینے پر بھی خفا ہے؟ ریاست نے اپنا کام کر دیا۔ اب ذمہ داری ٹی ایل پی اور اس کے رہنمائوں کی ہے۔ اُن کا مقصد بہترین جس کو اُن کے طریقہ احتجاج اور تشدد کی وجہ سے فائدہ کی بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ ٹی ایل پی ایسا طریقہ احتجاج نہیں اپنائے گی جس میں تکلیف اپنے ہی لوگوں کو ملے، جلاو گھراو بھی اپنی ہی ریاست اور عوام کا ہو اور ناحق خون بھی بہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ