آئینی ترامیم کے تحت زرعی شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے جانے کے بعد خطرات سے دوچار۔عالمی بینک

اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان میں آئینی ترامیم کے تحت زرعی شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے جانے کے بعد زرعی شعبے کو سیلابوں، خشک سالی اور ٹڈی دل کے کیڑوں کے حملوں جیسے بڑے خطرات سے نمٹنے کے صوبوں میں انتخابات نہ ہونے کے سبب پاکستان کا زرعی شعبہ ان خطرات سے بری طرح متاثر ہوا ہے جو ہر گزرتے سال میں پاکستان کی پیداوار پر منفی اثرات ڈالنے کا سبب بن رہا ہے ،پاکستان کے زرعی شعبے کی صورتحال اور اسے درست کرنے کیلئے عالمی بینک کی جانب سے حکومت پاکستان کے سپرد کئے گئے پالیسی نوٹ میں پاکستان کو تجویز کیا گیا کہ پاکستان میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں زرعی شعبے اور خوراک کی پیداوار اور دستیابی کے نظام کی مشترکہ نگرانی کی حکمت عملی بنائیں جس میں ہر سال فصلوں کی متوقع پیداوار، عالمی منڈیوں میں ان کی مانگ اور قیمتوں میں اتار چڑھائو، امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی کے سبب قیمتوں پر ممکنہ منفی اثرات، ملک میں فصل زائد پیدا ہونے کے سبب بنائے جانے والے فاضل ذخائر اور ان کے استعمال کیلئے وقت کا تعین، سرکاری سطح پر زرعی اجناس کی سٹاک بنانے کیلئے خریداریوں کی ضروت اور وقت کا تعین کرنے کیلئے مشترکہ کاوشیں کرنا ہوں گی ،پاکستان میں آبادی میں اضافہ کے مقابلے میں زرعی پیداوار میں اسی تناسب سے اضافہ نہ ہونے کے سبب پاکستان زرعی اجناس برآمد کرنے والے ملک سے زرعی اجناس درآمد کرنے والا ملک بن گیا اور عالمی منڈی میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی سے پاکستان کے زرعی اجناس کے صارفین براہ راست ان کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب متاثر ہونے پر مجبور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو آبادی میں اضافہ کے مطابق فصلوں کی پیداوار بڑھانے ، انہیں بدلتے ہوئے موسمی حالات، سیلاب، خشک سالی اور مہلک کیڑوں کے حملوں سے بچائو اور فصلیں کاشت کرنے کیلئے بہتر وقت کے بارے میں معلومات فراہم کر کے انہیں مفید طور پر کاشت کاری کے بارے میں فیصلے کرنے میں مدد فراہم کرنا ہوگی۔

عالمی بینک نے نشاندہی کی کہ اس وقت پاکستان اپنی زرعی اجناس کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کی پیداوار میں اضافہ نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے زرعی شعبے کے بارے میں پیشگی فیصلوں کے بجائے وقت گزرنے کے بعد داد رسی سے متعلق پالیسیوں کے سبب کاشت کار براہ راست حکومتی رد عمل کے منتظر رہنے پر مجبور ہیں جبکہ پاکستان کی زرعی اجناس کی منڈیاں دونوں کیلئے  مشکلات کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا رد عمل ایک طرف کاشت کاروں کو ان کے جائز آمدن سے محروم کر رہا ہے تو دوسری جانب صارفین سے بھاری قیمت کی وصولیاں کر کے ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں ،زرعی شعبے کے مسلسل کمزور ہونے کے سبب پاکستان کا زرعی شعبہ اب دستیاب وسائل جن میں زمین، ہنر مند اور تجربہ کار زرعی محنت کشوں کی خدمات، پانی، زرعی قرض اور دیگر زرعی لوازمات سے پوری طرح مستفید نہیں ہو پا رہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب شہری آبادیوں کے قریب کاشت کاری کا خاتمہ اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر بھی ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے اسی طرح پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زرعی شعبے میں عدم دلچسپی ان کی اس سیکٹر  کی ترقی میں کردار ادا نہ کرنے کے سبب ابتری کی جانب گامزن ہے جیسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔