8فروری کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے ، پورے پاکستان سے، 1315خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اِن میں غریب اور غیر معروف خواتین بھی شامل ہیں۔ اگر ملک بھر سے خواتین کو سیاست میں حصہ لینے، انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے اور رکن اسمبلی بننے کا حق حاصل ہے تو کے پی کے اور بلوچستان کے دور دراز قبائلی علاقوں میں مقیم ہماری غیر معروف خواتین کو بھی یہ حق حاصل ہے ۔
اگرچہ سخت قبائلی روایات ، محدود سماجی و مالی وسائل اور شدید پسماندگی کی رکاوٹیں راستے میں حال ہیں لیکن اِن محدودات کے باوصف قبائلی خواتین سیاست و انتخابات کے شجرِ ممنوعہ سے دور نہیں ہیں۔اب باجوڑ سے8فروری2024 کے انتخابات کے لیے محترمہ سلطنت بی بی نے ایک نئی مثال قائم کی ہے ۔ لیکن پہلے باجوڑ کا چھوٹا سا تعارف!
صوبہ خیبر پختونخوا کے مالا کنڈ ڈویژن میں باجوڑ کو ضلعی مقام حاصل ہے ۔2018 سے قبل یہ فاٹا کی ایک قبائلی ایجنسی کہلاتی تھی ، لیکن اب یہ کے پی کے میں ضم ہو چکی ہے ۔ دس لاکھ آبادی کے حامل اور 1290 مربع کلومیٹر رقبے کو محیط باجوڑ کی 52کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے ۔ اِس کے پار افغانستان کا صوبہ کنر ہے۔
اِسی 52کلومیٹر سرحد سے، آئے روز، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی جانب سے، مبینہ طور پر،پاکستان کے خلاف در اندازی کرنے کی وارداتوں کی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں ۔کئی بار یہاں دہشت گردی اور خود کش حملوں کی خونی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی جری فورسز ، ہمہ وقت ،اِن دراندازیوں کے انسداد کے لیے چوکس و بیدار رہتی ہیں ۔ باجوڑ کا صدر مقامخار ہے ۔
اِسی خار سے اب محترمہ سلطنت بی بی8فروری کے عام انتخابات کے لیے میدان میں اتری ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑرہی ہیں ۔چاہتی تھیں کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملے لیکن اب آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہی ہیں۔ باجوڑ ایسے دور افتادہ ، انتہائی پسماندہ اور شورش زدہ خطے سے، جہاں خواتین کو پردے کی سخت پابندیوں کا بھی سامنا ہے، سلطنت بی بی صاحبہ کا صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ حیران کن ہے۔
اِس فیصلے کو دلیرانہ اور شجاعانہ کہا جانا چاہیے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں خواتین اور بچیوں پر جو متنوع پابندیاں عائد ہیں، اِن کا آئین، قانون اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض نسل در نسل چلتی سخت قبائلی روایات کا تسلسل ہیں۔ مگر اب تعلیم کے پھیلاؤ اور میڈیا کے متنوع پیغامات کے باعث پابندیوں کے یہ حصار ٹوٹتے بکھرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
پچھلے انتخابات میں خار سے یہ پابندیاں ایک مقامی قبائلی خاتون، محترمہ بادام زری، نے پہلی بار توڑی تھیں ۔ وہ خار سے قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے کے لیے میدانِ انتخاب میں اتریں ۔ کامیاب تو نہ ہو سکی تھیں مگر800ووٹ حاصل کرکے ایک منفرد تاریخ ضرور رقم کر گئیں ۔
محترمہ بادام زری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اب محترمہ سلطنت بی بی سامنے آئی ہیں۔ وہ حلقہPK21سے انتخاب لڑ کر ایم پی اے بننا چاہتی ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ راقم کا اگر باجوڑ میں ووٹ ہوتا تو یقینا اپنا ووٹ محترمہ سلطنت بی بی کو کاسٹ کرتا ۔ باپردہ سلطنت بی بی صاحبہ، جو اپنی پیش رو بادام زری کو اپنا محسن بھی کہتی ہیں، نے میدانِ انتخاب میں اترنے کے بعد میڈیا کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
کہتی ہیں:جس علاقے سے میرا تعلق ہے، وہاں سے مجھ ایسی کسی خاتون کا انتخابی سیاست کے لیے میدان میں آنا سہل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو خواتین کو بازار تک جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ چہ جائیکہ سیاست و انتخابات میں سامنے آیا جائے ! مجھے مگر اللہ تعالی نے ہمت عطا فرمائی ہے اور میں اپنی قبائلی خواتین کے متعدد اور متنوع مسائل اور مصائب حل کرنے اور ایم پی اے منتخب ہو کر ان مسائل کو اعلی حکام تک پہنچانے کے لیے میدانِ عمل میں آئی ہوں ۔
امید ہے کہ خار میں میرے حلقے کی خواتین اپنے ناقابلِ بیان مسائل و مصائب کے حل کے لیے مجھے ووٹ دیں گی ۔
خار کے میدانِ انتخاب میں اترنے والی اِس خاتون کی ہمت کی داد دینی چاہیے۔ وہ ہم سب کی تحسین و ستائش کی مستحق ہیں۔ انھوں نے گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کر اپنے مصائب پر اشکباری کرنے، اپنے سنگین مسائل پر کڑھنے اور بالادست مردوں سے زیر لب شکوہ کناں ہونے کی بجائے سامنے آ کر اپنے مسائل کے حل کے لیے خود کوشاں ہونے کا شاندار فیصلہ کیا ہے ۔
اب وہ کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ اور نصیب کی بات ہے لیکن سلطنت بی بی کے حوصلے اور کوشش کی سراہنا کی جانی چاہیے ۔ اگرچہ وہ مقامی سطح پر کئی مردوں کی نظروں اور دلوں میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹک بھی رہی ہوں گی ، لیکن شاباش ہے کہ وہ اپنا سیاسی فرض ادا کرنے باہر نکلی ہیں ۔
سلطنت بی بی ثابت کررہی ہیں کہ باپردہ رہ کرسیاست بھی کی جا سکتی ہے اور انتخابات بھی لڑے جا سکتے ہیں۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے حقوق کی بازیابی و تحفظ کے لیے جنگ بھی کی جا سکتی ہے۔ سلطنت بی بی کی میڈیا کے روبرو کی گئی باتیں سنی جائیں تو انسان پریشان ہو کررہ جاتا ہے کہ ہماری قبائلی خواتین آج بھی ایسے حقوق سے محروم ہیں جو آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اسلام نے مسلمان خواتین کو عطا کر دیے تھے۔
پچیس سالہ محترمہ سلطنت بی بی جو ایک بیٹی کی والدہ بھی ہیں، کہتی ہیں: ہمارے قبائلی سماج میں قبائلی خواتین کے مسائل نہایت گمبھیر ہیں۔ ہمیں گھروں کے اندر ہی اپنوں کے استحصال کا سامنا ہے ۔ ہمارے بنیادی حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ ہماری آوازوں کو بزور طاقت دبا دیا جاتا ہے۔ احتجاج کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اس لیے میں بے آوازوں کی آواز بننا چاہتی ہوں۔ رکنِ اسمبلی منتخب ہو کراِن آوازوں کو اوپر کی سطح تک پہنچانا نسبتا سہل اور آسان ہو جاتاہے۔ ایم پی اے کا الیکشن لڑ کر میں اپنا وہ حق استعمال کررہی ہوں جو مجھے میرے ملک کے آئین، قانون اور اخلاق نے عطا کیا ہے۔ میری مخالفت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
خواتین کے لیے صحت اور تعلیم کے مواقع میں بہتری لانا اور اضافہ کرنا سلطنت بی بی صاحبہ کی ترجیحات میں شامل ہیں۔سلطنت بی بی صاحبہ، جو خار کی تحصیل شنکی سے پہلے ہی بلدیاتی انتخابات میں کونسلر منتخب ہو چکی ہیں، کا دلگیری سے کہنا ہے: خار کے کسی سرکاری اسپتال میںکوئی ایک لیڈی ڈاکٹر بھی نہیں ہے۔
حتی کہ خار کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال میں بھی نہیں۔ ایسے میں سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے حلقے کی خواتین اور بچیاں، صحت کے معاملات میں، کن کن اور کیسے کیسے عذابوں سے گزررہی ہوں گی ؛ چنانچہ ایم پی اے منتخب ہو کر اپنے حلقے میں خواتین کے لیے خاص طور پر لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی، خواتین کے لیے کئی پوسٹ گریجویٹ کالجز کی تعمیر اور نئے اسپتالوں کی تعمیر میری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
سلطنت بی بی صاحبہ جن مسائل اور مصائب کا ذکر کرتے سنائی دے رہی ہیں، ان سب کا ہم یہاں احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہم مگر دل سے ان کی انتخابی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس