چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی شناخت ہی قابل، دیانتدار اور بااصول ہونا ہے۔ ایسی شخصیت اگر فطرتا دلیر بھی ہو تو پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ اسے جھکایا یا خریدا جا سکے۔ دھرنا کیس فیصلے کے بعد پوری ریاست نے مل کوشش کی کہ قاضی کو گرانا ہے مگر یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، ثاقب نثار سے لے کر بندیال دور تک کے تمام چیف جسٹس حضرات اور خود برادر ججوں کی صفوں میں سے بھی برداران یوسف کی صورت میں دشمنوں کا سامنا تھا۔ پورے کے پورے میڈیا ہاؤسز ان کے در پے تھے۔ پی ٹی آئی سے لے کر ایم کیو ایم تک اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاست کرنے والی تمام حکومتی پارٹیوں نے اپنے طور پر گھیراؤ کر رکھا تھا۔ جب دیکھا گیا کہ جسے ترنوالہ سمجھ رہے تھے وہ لوہے کا چنا نکلا۔ پھر انسانی نفسیات سے کھیلتے ہوئے ان کے گھر والوں کو عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں گھسیٹا گیا۔ زخمی ٹانگ کے سبب بیساکھیوں کے ذریعے عدالتوں میں آکر بغض بھرے ججوں کے طعنے سہنے والی خاتون نے بھی باوقار طریقے سے شوہر کا ساتھ دیا۔ جعلی مقدمہ پٹ کررہ گیا۔ منصوبہ سازوں نے جسے جج کے منصب سے ہٹانا تھا وہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے چیف جسٹس آف پاکستان بن گیا اور ملکی عدالتی تاریخ کی بھیانک غلطیوں کو سدھارنے کے مشن پر ہے۔ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ختم کرانے کے لیے ان کے وکلا نے جس طرح لاہور اور پشاور ہائی کورٹس میں ہم خیال ججوں کی تلاش میں دوڑ لگائی اس سے واضح ہوگیا تھا کہ وہ جان چکے ہیں کہ ان کے موقف میں جان نہیں۔ بہت اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ میں کارروائی براہ راست نشر ہونے کے سبب پوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ اپنا کیس ڈھنگ سے پیش کرنا تو درکنار وکلا کے پاس کسی سوال کا معقول جواب ہی نہیں تھا۔ دوران سماعت تسلیم کرنا پڑا کہ پارٹی انتخابات میں بے ضابطگیاں ہوئیں۔ اکبر ایس بابر سمیت پی ٹی آئی کے بانی ارکان نے بھی جم کر مقدمہ لڑا۔جو حلقے یہ سمجھ رہے تھے کہ سپریم کورٹ قانون کے بجائے نظریہ ضرورت کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے گی ان کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ دوسری جانب ایسے صائب الرائے بھی موجود تھے جو وثوق سے کہہ رہے تھے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو دباؤ میں نہیں لایا جاسکتا۔ انہیں قانونی طور پر جو موقف بھی درست لگا وہی فیصلہ آئے گا۔ایسا ہی ہوا مگر میڈیا اور سوشل میڈیا میں تو جیسے کسی نے مکمل تیاری کررکھی تھی کہ جیسے ہی کوئی فیصلہ آئے قاضی صاحب کی کردار کشی کے لیے مہم چلا دی جائے۔ نام نہاد اینکروں سمیت کئی لوگ بے نقاب ہوگئے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر فیصلہ تمام قوانین کو نظر انداز کرکے پی ٹی آئی کے حق میں آتا تو پھر بھی یہ کمپین چلنا ہی چلنا تھی کہ چیف جسٹس نے ففتھ جنریشن وار کے جنگجوؤں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے، قانون پیچھے رہ گیا وغیرہ وغیرہ۔بعض غلیظ دماغوں نے قاضی فائز عیسی کو ثاقب نثار جیسے بونے کے ساتھ ملانا شروع کردیا۔ایسا کرنے والے خود کوچہ صحافت میں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے داخل ہوئے یا اپنے یو ٹیوب چینل بنا کر گھٹیا پروپیگنڈا کرنے کے لیے بدنام ہیں۔ تیسری قسم ان نام نہاد دانشور صحافیوں کی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ان سے پیشگی اجازت لے کر فیصلے کریں۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جنرل باجوہ کے دور تک محض ایک کرنل سپریم کورٹ چلایا کرتا تھا۔ قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا۔ کرپشن میں ملوث جسٹس مظاہر نقوی استعفا دے کر بھاگ نکلے لیکن مکمل بچاؤ کی کوئی صورت نہیں، بدنام زمانہ نگران جج اعجاز الاحسن بھی خود ہی منصفی چھوڑ گئے۔ سپریم کورٹ ہی نہیں ہائی کورٹوں میں بھی اب کچھ ہیں جنہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ جرات اور انصاف کا یہی امتزاج ہے کہ جس کے سبب اب نظر آنے لگا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسے حساس مقدمات بھی لگ گئے ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی ٹانگیں کانپ جایا کرتی تھیں۔ جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالت نے آئین شکنی پر آمر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو فوج کی جانب سے اتنا شدید ردعمل سامنے آیا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کے روبرو آکر انتباہ کیا کہ ادارے کے سابق سربراہ کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر فورسز میں شدید غم وغصہ پایا جارہا ہے۔ یہ کھلی دھمکی تھی۔ اسی تسلسل میں لاہور ہائی کورٹ سے ایک غلط فیصلہ کراکے مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت ہی ختم کرادی گئی اور اس بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ترقی دیکر سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا۔ تمام حقائق اور ممکنہ نتائج سے اچھی طرح واقف ہوتے ہوئے بھی چیف جسٹس نے نہ صرف یہ کیس لگایا بلکہ مشرف کی سزائے موت بحال کرکے آمروں کے انجام کے لیے مثال قائم کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے آئین کی روح کے مطابق پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرکے دکھایا۔پاکستانی عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بنے بھٹو کیس کو بھی سماعت کے لیے مقرر کرکے کارروائی شروع کردی۔ عدلیہ کے ایک اور مرد آہن اور دیانتدار جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے مقدمے پر بھی سماعت شروع کردی۔ دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے احکامات جاری کردئیے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ کی سمت کتنی تیزی سے درست ہورہی ہے۔ چیف جسٹس کے خلاف مہم چلانے والے وہی شیطانی دماغ ہیں جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے۔ بہت اچھا ہوا کہ دونوں بڑی وکلا تنظیموں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئین پسند ججوں کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ ویسے یہ کوئی راز ہے کہ بازاری مہم کون چلا رہا ہے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا پر شر انگیزی کرنے والے پکڑے جائیں یا اسی طرح سے کھلی چھوٹ ملی رہے دونوں صورتوں میں یہ طے ہے کہ آئین وقانون کی سربلندی کے لیے ان کا عزم متزلزل نہیں ہوگا۔ اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ سانحہ نو مئی میں ملوث 103 عام شہریوں (سویلیز) کا ملٹری ٹرائل مکمل ہو چکا، 90 فیصد کیسیز میں مشتبہ افراد فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پائے گئے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر ملتے ہی سزائیں سنا دی جائیں گی۔ اچھی بات ہے کہ اس حوالے معاملات کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ دوسری جانب جو بنیادی مسئلہ نظر انداز کیا جارہا ہے اس میں تو کسی لمبی چوڑی تحقیقات کی بھی ضرورت نہیں۔ دس، بارہ اینکر، بیس، پچیس یو ٹیوبرز اور چالیس پچاس کے قریب سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ملک میں جھوٹ، ہیجان، فتنہ پروری اور انتشار کو ہوا دے رہے ہیں۔ قانون کے مطابق قابو کرکے راہ راست پر لانا زیادہ سے زیادہ تین دن کا کام ہے۔ پتہ نہیں اب کس چیز کا انتظار کیا جارہا ہے۔ ان کی شرانگیزیاں صرف سویلین اداروں تک محدود نہیں۔ حالیہ ایرانی جارحیت پر ان کا جشن ثابت کر رہا ہے کہ یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اگر ان کا فیصلہ اگلی منتخب حکومت پر چھوڑا گیا تو پھر ناں ہی سمجھیں۔ ایسے عناصر کو اسی طرح سے چھوٹ ملی رہی تو ملک بحران میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات