جس طرح انفرادی سطح پر مدینہ والے رحمت العالمینﷺ کا نام لینا آسان لیکن اپنی زندگی کو آپﷺ کے تعلیمات کے مطابق ڈھالنا نہایت مشکل کام ہے ، اسی طرح حکومتی سطح پر سیاسی مقاصد کے لئے ریاست مدینہ کا ورد کرنا آسان ترین لیکن بدترین کام ہے کہ حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ جیسی ریاست قائم کرنا مشکل ترین کام ہے۔
ریاست مدینہ کی بنیاد سچائی، حق گوئی اور شفافیت پر رکھی گئی تھی جبکہ عمران خان کی حکومت دروغ اور دھاندلی کی پیداوار ہے ۔ ریاست مدینہ والے کٹ جاتے تھے،مرجاتے تھے لیکن اپنے وعدوں سے انحراف کا تصور نہیں کرتے تھے جبکہ عمران خان صاحب یوٹرنز کے لئے مشہور ہیں اورشاید ان کے وزرا تک ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتے ۔
زرداری نے علانیہ کہہ دیا تھا کہ وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے جبکہ عمران خان روزانہ عملی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ہاں وعدوں اور معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔
ریاست مدینہ کے حکمرانوں کے قول و فعل میں ہم آہنگی کا یہ عالم تھا کہ بدترین دشمن بھی ان کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کو حرف آخر سمجھتے تھے لیکن سیاسی مقاصد کے لئے ریاست مدینہ کا نام استعمال کرنے والے عمران خان نے پاکستان کوگویا تضادستان اور بدتمیزستان بنا دیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے معاملے کو دیکھ لیجئے ۔ جب یہ لوگ نواز شریف کی حکومت کے خلاف میدان میں نکلے تو عمران خان سیاسی مقاصد کے لئے ان کے سپورٹر بن گئے ۔ تب شاہ محمود قریشی جاکر تحریک لبیک کے دھرنوں میں بیٹھتے تھے جبکہ ابرارلحق جیسے لوگ بھی احسن اقبال وغیرہ کے خلاف اس کارڈ کو بری طرح استعمال کرتے رہےتو حکومت گھبرا کر جھک گئی۔
تاہم میری زندگی کا مشاہدہ ہے کہ جس نے بھی اللہ اور اس کے نبیؐ کے نام کو سیاسی یا ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا، وہ عزت کے ساتھ دنیا سے نہیں گیا۔ 16نومبر 2020کو وزیرداخلہ اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری کے دستخطوں کے ساتھ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ فرانسیسی سفیر کو پارلیمنٹ کے ذریعے تین ماہ کے اندر اندر ملک بدر کیا جائے گا۔ پاکستان اپنا سفیر وہاں تعینات نہیں کرے گا اور یہ کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائیگا ۔
عمران خان چونکہ وعد ے کرکے بھلادینے اور یوٹرنز لینے کے ماہر ہیں ، اس لئے معاہدہ کرکےحسب عادت اپوزیشن کو لتاڑنے اور میڈیا کو سنبھالنے میں لگ گئے ۔ معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد تحریک لبیک ایک بار پھر2021کے اوائل میں نکل آئی ۔
کئی روز تک شہروں اور سڑکوں کو بند کئے رکھا چنانچہ ایک بار پھر گھبرا کر عمران خان کی حکومت نے ان کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرلیا جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ فرانس کے سفیر کے معاملے کو بیس اپریل تک پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا ۔ پارلیمنٹ میں تو پیش کیا گیا اور اسے کمیٹی کو بھی بھیج دیا گیا لیکن کوئی فالواپ نہیں ہوا۔ چنانچہ تحریک لبیک پھر لاہور سے نکلی ۔وسیم اکرم پلس تماشہ دیکھتے رہے ۔
ماضی میں تو حکومت صرف گھبرا جاتی تھی لیکن اب کی بارتو بوکھلا بھی گئی۔تحریک لبیک کو عمران خان ہی کی حکومت نے خلاف قانون یعنی کالعدم تو پہلے قرار دیا تھا لیکن اس موقع پر اس نے اس سے متعلق یہ بیانیہ دے دیا کہ وہ دہشت گرد جماعت ہے جو انڈیا سے مددلیتی ہے۔اکثر وزیر تو گھبرا کر غائب ہوگئے لیکن وزیرداخلہ شیخ رشید اور وزیراطلاعات فواد چوہدری اس بیانئے کی تبلیغ کرتے رہے اور میڈیا کو بھی مجبور کیا گیا۔
عمران خان خود بھی دعوے کرتے رہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن معیشت کے اربوں روپے کے نقصان، پانچ پولیس اہلکاروں کی شہادت اور لاکھوں لوگوں کی تکالیف کے بعد اچانک عمران خان نے یوٹرن لے لیا۔ جب لبیک کے ہمدردوں کے ساتھ عمران خان کی پہلی ملاقات ہورہی تھی تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ فواد چوہدری اور طاہر اشرفی کو میٹنگ سے نکالا جائے، مطالبہ مان لیا گیا۔ پھر مفتی منیب الرحمٰن کو سامنے لایا گیا۔
ان کی فرمائش پر مذاکراتی عمل سے شیخ رشید احمد اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کو بھی باہر رکھا گیا اور شاہ محمود قریشی کو شامل کرایا گیا حالانکہ مذاکرات میں ان کے علاوہ اسپیکر اسد قیصر اور علی محمد خان کی شرکت بھی نمائشی تھی۔ اصل مذاکرات، ”اصل لوگوں“ اور ٹی ایل پی کے نمائندوں بشمول سعد رضوی کے مابین ہوئے ۔
چنانچہ ایک خفیہ معاہدہ طے پایا جس میں تحریک لبیک کی تمام شرائط کو تسلیم کرلیا گیا۔یہ خفیہ معاہدہ ایسے عالم میں کیا گیا کہ کوئی متعلقہ وزیر ، یعنی وزیر مذہبی امور، وزیر داخلہ اور وزیر قانون اس کا حصہ نہیں تھے جبکہ وزیرخارجہ، جن کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور ان کا کام بیرونی دنیا میں جاکر اس طرح کی تنظیموں سے اپنی ریاست کی لاتعلقی کو ثابت کرنا ہے، نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔
حکومت اس دوران میڈیا اور اپوزیشن سے تعاون مانگتی رہی اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں نے (سوائے چند لاڈلوں کے) تعاون کیا بھی لیکن اب جبکہ عمران خان نے یوٹرن لے کر خود اپنے وزیروں کو بھی رسوا کیا، تو کل جب اس طرح کی صورت حال بنے گی تو میڈیا اور اپوزیشن کیوں کر ان کا ساتھ دے گی ۔
ایک دن انڈین ایجنٹ اور دوسرے دن محب وطن کے اس ڈرامے کے بعد ، اب اس ریاست کے اس طرح کے الزامات پر کون اعتبار کرے گا۔بہ ہر حال تحریک لبیک کو جیت اور حکومت کو پسپائی مبارک ہو۔ آئیے سب اللہ کے حضور ہاتھ بلند کریں کہ وہ اس معرکے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور دیگر شہدا کے درجات بلند کرے اور ان کے پسماندگان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
بشکریہ روزنامہ جنگ