اسلام آباد (صباح نیوز) صحافیوں کے قتل کے خلاف قائم کی جانے والی عالمی عدالت کل منگل 2 نومبر سے نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں اپنی باقاعدہ سماعت کا آغاز کریگی جس میں پہلی دفعہ افراد کی بجائے حکومتوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کل 2 نومبر کو اقوام متحدہ کی طرف سے صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کیخلاف بطور یوم احتجاج منایا جا رہا ہے اور اسی لئے دی ہیگ میں قائم کی جانے والی عالمی عدالت اسی دن اپنی سماعت کا آغاز کریگی اس عدالت کو پیپلز ٹربیونل کا نام دیا گیا ہے جس میں دنیا کے معروف ماہرین قانون اور صحافی شامل ہیں ۔ یہ ٹربیونل کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ، رپورٹرز ود آٹ بارڈرز اور فری پریس کی درخواست پر بنایا گیا ہے جس میں نوبل انعام یافتہ صحافی ماریہ ریسا فلپائن کی حکومت کے خلاف بطور گواہ پیش ہونگی۔
پاکستان کے معروف صحافی و اینکرپرسن حامد میر کو بطور مبصر اس ٹربیونل کی کارروائی دیکھنے کے لئے بلایا گیا ہے۔ فلپائن کے علاوہ سری لنکا، سعودی عرب اور شام کی حکومتوں کے خلاف کارروائی مئی 2022 تک مکمل کر لی جائے گی اور فیصلے کا اعلان تین مئی کو عالمی یوم صحافت پر کیا جائے گا ۔
پاکستان میں ایک ویب سائیٹ ”نیا دور” پر شائع واشنگٹن پوسٹ کی ایک تحریر کے مطابق سال2017میں، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے ایک معاون کو بتایا کہ وہ جمال خاشقجی پر گولی کا استعمال کریں گے اگر خاشقجی جو اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، نے سعودی حکومت پر تنقید بند نہ کی۔ بالآخر، قاتلوں کی ایک ٹیم نے اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے کے دورے کے دوران خاشقجی کو قتل کر دیا۔
بعد میں سعودی عدالت نے خاشقجی کے قتل کے الزام میں پانچ افراد کو سزائے موت سنائی۔ اس کے باوجود جو بھی اس کیس کی تفصیلات جانتا ہے اس پر واضح ہے کہ ان ججوں نے کبھی بھی اصل مجرم کو ہاتھ لگانے کی جرت نہیں کی۔
اس بھیانک حقیقت سے آگاہی رکھنے والی خاشقجی کی منگیتر، ہٹیچے چنگیز اپنے مرحوم منگیتر کے اصل قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔کل 2 نومبر کو ہٹیچے کو بالآخر یہ موقع مل جائے گا۔ اس دن وہ پرمانینٹ پیپلز ٹریبونل کے سامنے خاشقجی کے کیس میں گواہی دیں گی۔ یہ ایک فورم ہے جسے سول سوسائٹی کے سرکردہ گروپس نے ریاستوں کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے محاسبے کے لئے بنایا ہے۔
کل 2 نومبر اس برس صحافیوں کے خلاف بلا خوفِ محاسبہ جرائم کے خاتمے کا بین الاقوامی دن بھی ہے، اور جس سیشن میں چنگیز نظر آئیں گی، اسے تین سرکردہ آزادی صحافت کی تنظیموں نے منعقد کیا ہے۔ ان میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، رپورٹرز ودآٹ بارڈرز اور فری پریس ان لمیٹڈ شامل ہیں۔ خاشقجی کا کیس واحد کیس نہیں ہے جس کی ٹربیونل میں تفتیش کی جائے گی بلکہ یہ دنیا بھر کے صحافیوں پر حملوں سے متعلق بات کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔
دی ہیگ میں ہونے والی سماعت ان لوگوں کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گی جو ان جرائم سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، بشمول قتل کیے گئے صحافیوں کے رشتہ دار اور ساتھیوں کے، جنہیں اکثر دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹربیونل مقتولین کے لواحقین کو سرِ عام ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے ایک پلیٹ فارم دے گا جو دراصل قتل کے ذمہ دار ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے کیسز میں یہ واحد آپشن ہے جو آزادی صحافت کے محافظوں کے پاس رہ گیا ہے۔
تحریر کے مطابق برطانوی نوبیل انعام یافتہ لکھاری برٹرانڈ رسل نے 1966 میں پہلا عوامی ٹربیونل قائم کیا تھا، جس کا مقصد امریکی حکومت کو ویتنام میں جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا تھا۔ اگرچہ ٹربیونل کے پاس کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے، لیکن یہ دنیا کے بہترین ججز اور صحافیوں کی موجودگی میں ثبوت سامنے رکھ کر رائے عامہ کو ضرور ہموار کر سکتے ہیں۔ ٹربیونل انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون پر مبنی فریم ورک کے تحت کام کرے گا۔ تمام ججز اور تفتیش کار ان قانونی اصولوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تمام نو ججز عالمی سطح پر اچھی شہرت اور ساکھ کے مالک ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تفتیش کاروں کے سربراہ انسانی حقوق کی ممتاز وکیل الموڈینا برنابیو ہیں، جن کے ساتھ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سابق جج سر ہاورڈ موریسن ہیں۔ برنابیو اور ان کی ٹیم نے ال سلواڈور کے سابق وزیر دفاع کارلوس یوجینیو وائڈس کاسانووا کے خلاف ایک طویل قانونی جنگ لڑی تھی، جنہیں ماورائے عدالت قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے بالآخر فلوریڈا سے اپنے آبائی ملک میں انصاف کا سامنا کرنے کے لئے واپس بھیجا گیا تھا۔ اب برنابیو سری لنکا کے اس وقت کے وزیر دفاع گوٹابایا راجا پاکسے کے خلاف پیپلز ٹربیونل میں صحافی لاسانتھا وکرماٹونگے کے قتل کا حکم دینے کے ثبوت پیش کریں گی۔ راجا پاکسے اب سری لنکا کے صدر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹربیونل کا آغاز صحافیوں کی اموات پر احتساب نہ ہونے کے مسئلے پر بات چیت سے ہوگا۔ کارروائی میں ایک اور اہم گواہ فلپائن سے تعلق رکھنے والی نوبیل امن انعام یافتہ ماریا ریسا ہیں، جو وہاں حکومت کی آزادی صحافت کے خلاف جنگ کے بارے میں بات کریں گی۔ مالٹا کے صحافی ڈیفنی کیروانا گالیزیا (جو 2017 میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے تھے) کے صاحبزادے میتھیو کاروانا گالیزیا اور چیک تفتیشی رپورٹر پاولا ہولکووا بھی گواہی دیں گے۔ یہ کھلی کچہریاں ایک انتہائی سنگین مسئلے پر روشنی ڈالیں گی کہ جس قسم کے حالات اس وقت دنیا میں ہیں، سچ کا قتل شاید دنیا کا محفوظ ترین جرم ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیپلز ٹربیونل سری لنکا، شام اور میکسیکو کی حکومتوں پر زور دے گا کہ وہ صحافیوں وکرماٹونگے، نبیل الشرباجی اور مگیل اینجل لوپیز ویلاسکو کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کریں۔ وکرماٹنگے کے قتل کیس میں ٹربیونل کی سماعت جنوری میں شروع ہوگی، جس کے بعد شامی صحافی الشرباجی کے لئے بھی اسی طرح کی کارروائی ہوگی، جسے شام کے فوجی حراستی مرکز میں قتل کیا گیا تھا۔ آخری سماعت، اگلے مارچ میں میکسیکو سٹی میں، لوپیز کے قتل سے متعلق ہو گی۔ فیصلے کا اعلان 3 مئی، عالمی یوم صحافت پر کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق پیپلز ٹربیونل کا فیصلہ راجا پاکسے اور دیگر مجرموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈال سکتا، لیکن ان کو دنیا بھر میں شرمندہ ضرور کرے گا۔ راجا پاکسے پہلے ہی رپورٹرز ودآٹ بارڈرز کی طرف سے تیار کردہ پریس کی آزادی کے شکاریوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ لاقانونیت کے ذریعے حکمرانی کرنے والے افراد کی اس فہرست میں محمد بن سلمان، شام کے صدر بشار الاسد، روسی صدر ولادمیر پوتن، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، چینی صدر شی جن پنگ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ پیپلز ٹربیونل کے فیصلے مجرموں کو یہ پیغام دیں گے کہ وہ اپنے جرائم کو چھپا نہیں سکتے۔ انہیں اپنی سچائی کے خلاف جنگ بند کرنی ہوگی۔
مجھے امید ہے کہ پیپلز ٹربیونل صحافیوں کے خلاف بلا خوفِ محاسبہ جرائم کے خاتمے کی جدوجہد کا آغاز کرے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کو اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے ان لوگوں کو دھمکیاں دینے اور ان پر حملہ کرنے سے باز آئیں، جو سنسر شپ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ سچ کے خلاف جرم ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت قابل قبول نہیں۔ پیپلز ٹربیونل کا پیغام سادہ ہے: آمر اور دہشت گرد جمال خاشقجی یا ڈیفنی کیروانا گیلیزیا جیسے صحافیوں کو مارنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ان کہانیوں کو نہیں قتل کر سکتے جو یہ صحافی دنیا کو سنا رہے ہیں۔